میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مدر انڈیا : مادرِ تنظیم کی ناخلف بیٹے سے رنجش

مدر انڈیا : مادرِ تنظیم کی ناخلف بیٹے سے رنجش

ویب ڈیسک
هفته, ۱۷ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرناٹک کے انتخابی نتائج کو بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دینا چاہتی ہے لیکن اس کا کوئی نہ کوئی دشمن کسی نہ کسی بہانے سے ان زخموں کو کریددیتا ہے ۔ ان دشمنوں کی فہرست میں تازہ اضافہ آر ایس ایس ہے ۔بی جے پی مادرِ تنظیم کے ترجمان ہفتہ وار آرگنائزر نے جب کرناٹک الیکشن پر مودی سمیت پارٹی کو جلی کٹی سنائی تو بی جے پی پر کیا گزرے ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ماں اکیلے میں تواپنے بچے کے کان اینٹھتی ہے مگر غیروں کے سامنے بھرپور دفاع کر تی لیکن آرگنائزر تو عوامی جریدہ ہے ۔ اس کو سنگھ کے دوستوں سے زیادہ دشمن غور سے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی آرگنائزر نے اس جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا، بی جے پی کے مخالفین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ اس کا ایک جملہ” ہر الیکشن جیتنے کے لیے صرف ‘مودی میجک’ اور’ ہندوتوا’ کے استعمال کافی نہیں ہے ” بالکل زبان زدِ عام ہوگیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی کی مخالفت میں آر ایس ایس نے اپنے نظریہ ‘ہندوتوا’ کی اثر پذیری سے بھی انکار کردیا ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سنگھ کو تنہائی کے بجائے علی الاعلان یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس لیے کہ جب کوئی بیٹا خوشامد پسند ہوجائے اور تنقید پر ناراض ہونے لگے تو اس کا دماغ اسی طرح درست کیا جاتا ہے ۔ یہ دیکھ کر محبوب خان کی مشہور فلم ‘مدر انڈیا’ کا کلائمکس یاد آتا ہے ۔ ویسے کشمیر فائلس کے خالق وویک اگنی ہوتری اس موضوع پر ‘بھارت ماتا کی جئے ‘ بنانا چاہیے ۔
کرناٹک کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ایک خاص تناظر میں آر ایس ایس سے وابستہ میگزین نے اتنی بڑی بات کہہ دی۔ اس نے کہا بی جے پی کو کئی محاذوں پر مقامی سطح پر مضبوط علاقائی قیادت اور موثر ڈیلیوری کی ضرورت ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اگر علاقائی سطح پر مضبوط قیادت نہ ہو تو محض مودی جی کی ڈگڈگی سے ووٹ نہیں ملتے ۔ بی جے پی یہ بات بھول گئی ہے کہ ملک میں صدارتی نظام نہیں ہے ۔ یہاں پارلیمانی نظام نافذ ہے ۔ پہلے مختلف حلقہ ہائے انتخاب سے ارکان پارلیمان یا اسمبلی منتخب ہوتے ہیں ۔ عام رائے دہندگان کے سامنے وہی امیدوار ہوتا ہے ۔ اسی لیے ٹکٹ دینے سے قبل اس کی ذات برادری کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ہر علاقہ میں ذات پات کا خیال کرکے مخصوص برادری کے آدمی کو ٹکٹ دیا جاتا ہے ۔ بی جے پی کو اگر مسلمان کو ٹکٹ دینے میں شرم آتی ہے تو اپنی حلیف اپنا دل کے ٹکٹ پر رامپور سے مسلمان کو لڑایا جاتا ہے کیونکہ وہاں مودی یا یوگی کا جادو نہیں چل سکتا ۔ اس حقیقت کے باوجود یوگی اور مودی پر پورا انحصار کرلینا اور سوچنا کہ وہ نیاّ پار لگا دیں گے سراسر حماقت ہے ۔ مضبوط علاقائی قیادت کے بغیر انتخابی کامیابی کو نا ممکن کہنے میں اسی بات کی جانب اشارہ ہے ۔
آر ایس ایس کرناٹک میں خاموشی کے ساتھ بی جے پی کا انحطاط دیکھتی رہی۔ اس کو امید رہی ہوگی کہ بی جے پی پھر بھی جیت جائے گی اور کوئی کمی رہ جائے تو امیت شاہ کے جوڑ توڑ سے سرکار بن جائے گی ۔ جب وہ سب نہیں ہوا تو اب وہ ڈیلیوری سسٹم کو مضبوط کرنے کا پروچن دینے لگی لیکن اب شاید بہت دیر ہوچکی ۔ بی جے پی والے آر ایس ایس کی نہیں مودی جی کے ‘من کی بات’ سنتے ہیں اور اس پر عمل کرنا کافی سمجھتے ہیں ۔ آرگنائزر نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ "کرناٹک کے انتخابی نتائج کانگریس کے حق میں آئے ہیں، لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ہارنا غیرمعمولی بات ہوگی۔ بی جے پی کے لیے صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے ۔” لیکن اقتدار کے نشے میں دھُت خودپسندی کا شکار بی جے پی کو ایسا نہیں لگتا اس لیے آریس ایس کو یہ زور جھٹکا دینا پڑگیا۔ دونوں جماعتوں کی حکمت عملی کا فرق بتاتے ہوئے آرگنائزر لکھتا ہے کہ حکمران پارٹی نے قومی سطح کے پروگراموں کے ساتھ ووٹروں کو راغب کرنے کی پوری کوشش کی، جبکہ کانگریس نے اسے مقامی سطح پرمرکوز رکھنے کی پوری کوشش کی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ آر ایس ایس نے ناکامی ٹھیکرا مرکز کی مودی سرکار کے سر پھوڑ دیا۔
آرایس ایس کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے ۔ پہلے تو اس نے اپنے خاص آدمی بی ایل سنتوش کو کرناٹک کی بی جے پی پر مسلط کیا۔ سنتوش نے برہمنوں کے غلبہ کی خاطر یدو رپاّ سمیت پورے لنگایت سماج کو پارٹی سے بدظن کیا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ آرگنائزر کو چاہیے تھا کہ اپنے اس اقدام کا بھی جائزہ لیتی اور برملا یہ تسلیم کرتی کہ یہ یہ فیصلہ خودکشی کے مترادف تھا۔ اس نے اتنا بڑا نقصان کردیا کہ اواخر میں مودی شاہ کے لیے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں بچا کیونکہ ہندوتوا کی شریعت میں اقتدار کے حصول کی خاطر حرام و حلال کی تفریق جائز نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے کرناٹک کی شکست میں جہاں مودی میجک ناکام ہوا ہے اور مقامی رہنما فیل ہوئے ہیں وہیں سنگھ کے ذریعہ بی ایل سنتوشی جیسے رہنما کا بھی اہم کردار ہے لیکن سنگھ اس پر گفتگو نہیں کرتا جو دیانتداری کے خلاف ہے ۔ آج آرگنائزر بی جے پی کے ڈیلیوری سسٹم کی ناکامی پر بجا طور سوال اٹھا رہا ہے لیکن جس وقت بی جے پی سرکار اقتدار میں تھی وہ ملائی کھانے میں مصروف تھی جس کا انکشاف موجودہ ریاستی وزیر صحت دنیش گنڈو راؤ نے کیا۔
کانگریس حکومت کے وزیر صحت نے سابق بی جے پی حکومت پر آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کو سینکڑوں ایکڑ زمین الاٹ کرنے کا سنگین الزام لگایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت نے بی جے پی کے دور میں جاری کیے گئے کچھ ٹینڈرز کو منسوخ کر دیا ہے اور باقی کی جانچ کر رہی ہے ۔ان کے مطابق ، زمین الاٹ کرنے کا مقصد ان تنظیموں اور ان کے نظریے کو پھیلانا تھا۔ یہ تقسیم بالکل نہیں ہونی چاہیے تھی۔ منسوخ شدہ ٹینڈرزمیں 108ایمبولینس اور ڈائیلاسز کی مشینوں کے معاہدے شامل ہیں۔اس طرح کا الزام لگانے والوں دنیش گنڈو راؤ تیسرے وزیر ہیں۔ان سے قبل محکمہ حیوانات کے وزیر کے ۔ وینکٹیش نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "اگر بھینس کو ذبح کیا جا سکتا ہے تو گائے کیوں نہیں؟ بی جے پی نے اس بیان کے خلاف احتجاج کیا۔” حالانکہ بعد میں انہیں پارٹی کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے علاوہ صنعت کے وزیر ایم بی پاٹل نے ہندوتوا کے دانشور چکرورتی پر حملہ کیا کیونکہ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ریاستی حکومت ساورکر کی 140ویں سالگرہ منانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اس لیے ہٹلر جیسی ہے ۔ اس کے جواب میں پاٹل بولے ، ” چکرورتی جیسے شخص کو ہماری حکومت کے بارے میں بولنے کا کیا حق ہے ؟ سماج کو فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے علاوہ اس کا کارنامہ کیا ہے ۔ وہ حجاب،
حلال وغیرہ جیسے بے معنی مسائل اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔”وزیر موصوف نے مزید کہا کہ ان کی حکومت تمام برادریوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا تحفظ کرے گی۔ان بیانات سے ظاہر ہے کہ کرناٹک میں سنگھ کے اچھے دن جاچکے ہیں اس لیے اس کی عقل ٹھکانے آنے لگی ہے اور سُر بدلنے لگا ہے ۔
آرگنائزر لکھتا ہے کہ بی جے پی زیادہ ٹرن آؤٹ والے انتخابات میں اپنے پچھلے ووٹ شیئر میں نمایاں اضافہ کرنے میں ناکام رہی اس لیے موجودہ وزراء کے خلاف حکومت مخالف لہر بی جے پی کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے لیکن جب تک مودی جی ہوش میں نہیں آتے اس وقت تک کسی بہتری کی توقع کرنا ممکن نہیں ہے ۔یہ ساری بات تو خیر انتظامی امور سے متعلق تھی لیکن آر ایس ایس کا یہ کہنا کہ انتخابی کامیابی کے محض ہندوتوا کافی نہیں ایک خطرناک اعتراف ہے ۔ بی جے پی نے کرناٹک میں فرقہ واریت کی بنیاد پر الیکشن لڑا جس کو آگنائزر ہندوتوا کہہ رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال یہ دونوں باتیں ہم معنیٰ ہوگئی ہیں۔ یہ آر ایس ایس کا بہت بڑا نقصان ہے کہ اس کے نظریہ کی پول کھل گئی اور مٹی پلید ہوگئی۔ سو سال بعد اقتدار میں آنے کے باوجود آر ایس ایس کی یہ درگت ہوگی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ویسے آج کل ٹائمز آف انڈیا و دیگر اخبارات کا لب و لہجہ بدلنے لگا ہے ۔
یہ سوال کرناٹک نتائج کے بعد سے موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ کیا عوام نے بی جے پی کے ہندوتوا کو مسترد کر دیا ہے ؟اس کا جواب دیتے ہوئے روزنامہ ہندو کے مالک اور معروف صحافی این رام نے بی بی سی پر کہا کہ ہم یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندو توا کو رد کردیا گیا۔ انہوں نے مثال دی کہ وزیر اعظم مودی کے ذریعہ ہنومان کا نعرہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے خلاف تھا۔اس کے باوجود وہ ناکام ہوگئے ۔ این رام کے مطابق لوگ کہتے ہیں کہ مقامی مسائل اہم ہیں، لیکن اس سے وہ نظریے کی ناکامی سے بری نہیں ہوجاتے ۔ کرناٹک میں ہندوتوا نظریہ کی ناکامی ہے ۔ خیر این رام جیسے لوگ تو بی جے پی کو کوستے ہی رہتے ہیں مگرآر ایس ایس کی تنقید کا زخم بی جے پی پر بہت دنوں تک تازہ رہے گا۔ سنگھ نے مغربی بنگال کی کراری شکست کے بعد بھی یہی کیا تھا اور اب پھر اسے دوہرا یا گیا ہے ۔ ماں بیٹے کی یہ رنجش کیا گل کھلائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں