میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشال کا قتل

مشال کا قتل

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال کا قتل ایک انتہائی خطرناک رویہ کا عکاس ہے لیکن اس سانحہ کا حقیقت پسندانہ اور غیرجانبدارانہ تجزیہ ایسے رویوں میں تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔مشال پر الزام ہے کہ وہ توہین رسالت اور تضحیک اسلام کا مرتکب ہوا ہے گویا موم بتی مافیا کو ایک نیا موضوع مل گیا ہے اپنے بے لگام جذبات کے اظہار کا،توہین رسالت اور تضحیک اسلام بعض عناصر کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور وہ اسے اظہار رائے کی آزادی کا مظہر قرار دیتے ہیں ان عناصر میں سرفہرست عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمن اور حنا جیلانی کے نام آتے ہیں پھر سورہ اخلاص سے بھی نابلد لیکن نامور قانون دان اعتزاز احسن بھی اس ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، یوں تو اس فہرست میں بہت سے نام ہیں لیکن اس وقت ان کا ذکر مناسب نہیں۔گزشتہ ایک عرصہ میں توہین رسالت اور تضحیک اسلام اس طبقہ میں ایک فیشن کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور پھر موم بتی مافیا کی سرپرستی نے اس جرم کو پختہ بنا دیا ہے کوئی مسلمان توہین رسالت اور تضحیک اسلام کا سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ ہر مسلمان کا جذبہ ہے کہ وہ حرمت رسول اور عظمت اسلام پر اپنی جان قربان کر دے۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اسلام پر جان قربان کرنے کا یہ عزم نہ تو نیا ہے اور نہ ہی وقتی اور جذباتی، یہ عزم تو اللہ کے نبی ﷺ کی خواہش کا پرتو ہے۔ آپ ﷺ اکثر اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جاو¿ں، پھر اُٹھایا جاو¿ں، پھر شہید کیا جاو¿ں اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ شہید کو شہادت کے وقت اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے اسی طرح شہید کے فضائل ودرجات مسلمانوںمیں شہادت کی تڑپ کو مہمیز دیتے ہیں ،شہید کے فضائل میں بیان ہے کہ اس کا قطرہ خون زمین پر ہی نہیں گرتا ہے کہ اس کو جنت میں اس کا مسکن پہلے دکھا دیا جاتا ہے اور یوم حشر شہید کو 70 افراد کی شفاعت کا حق دیا جائے گا، پھر قرآن الکریم میں رب کائنات کا ارشاد ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔شان رسالت ماب میں گستاخی اور اسلام کی تضحیک فیشن بن چکا اور سوشل میڈیا ان ناہنجاروں کے لیے سب سے آسان میدان، جس کے دل میں جو آیا جس نے امریکہ ،جرمن ،کینیڈا کا ویزہ چاہا اس نے شان رسالت میں گستاخی کو اپنے مقصد کے حصول کا آسان ذریعہ پایا دوسری جانب پی ٹی اے جو سوشل میڈیا کی ریگولیڑی اتھارٹی ایسے کے ذمہ داران کا طرز عمل بھی اسے بدبختوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے فیس بک اور ایسے ہی دوسرے ذرائع پر ایسے عناصر کی بیخ کنی اور مواد کو فوری بلاک کرنے اور ایسے مواد کے سوشل میڈیا پر نہ آنے دینے کا کوئی مربوط نظام تاحال تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے یہاں تک کے فیس بک کے مالکان سے اس مقصد کے لیے اطلاعات کے مطابق تاحال بات چیت کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہو سکا ہے ناروے کے بدذہنوں کی خباثت ذہنی کے بار بار اظہار کے بعد یوٹیوب چند دن ہی بند رہ سکی جبکہ فیس بک پر بے حساب خرافات کے باوجود اس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکی ہے بلکہ موم بتی مافیا کے کالے انگریزوں کا فرمان ہے کہ جس کو فیس بک پسند نہیں وہ اس پر نہ آئے ہم تو اپنے ذہنی گند کا اظہار یوں ہی کرتے رہیںمشال کے فیس بک اکاو¿نٹ پر ایک تعداد ہی ایسی ہی خرافات موجود ہیں جو کسی بھی باضمیر مسلمان کو اقدام پر اکسا سکتی ہے اگر اس کی فیس بک پر پہلی پوسٹ کے ساتھ ہی وہ صفحہ بند کر دیا جاتا تو کیا یہ سانحہ وقوع پذیر ہوتا یہ درست ہے کہ افراد کا اس طرح قانون ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے قانون پر عمل ریاست کا حق ہے لیکن اگر ریاست قانون پر عمل سے عملاً گریزاں اور معاملہ مسلمان کو جان سے عزیز ہستی کی ناموس کا ہو تو پھر ایسا ردعمل نہ تو غیر متوقعہ ہے نہ ہی غیر فطری۔ اگر ہم ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو ایک معاملہ نظر آتا ہے ایک صاحب جو کہ ایک صوبہ میں آئینی عہدہ پر فائز تھے مسلسل توہین رسالت کے مرتکب ہوتے تھے اور اپنے منصب کے اثر کی بنیاد پر اسلام بیزار میڈیا میں جگہ بھی پاتے تھے علماءنے حکومت وقت کی توجہ ایک سے زائد مرتبہ اس جانب مبذول کرائی لیکن وہ صاحب اپنی جگہ برقرار رہے اور اپنے خبث باطن کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے اگر قانون اور حکومت اپنا فرض پورا کرتی تو کیا ان کا قتل ہو پاتا جو شخص جیل میں ہوناچاہیے تھا وہ گورنر ہاو¿س میں عیش کی زندگی بسر کر رہا تھا پھر جب قانون نے اپنا فرض نہ نبھایا تو عقیدت مسلم نے اپنا فرض ادا کیا اور یوں شاتم رسول واصل جہنم ہوا اور ناموس رسالت پر جان دیکر دنیا اور آخرت کی سرخروی ممتاز قادری کا حق قرار پائی۔یہ ممکن ہے کہ مشال اپنی فیس بک آئی ڈی خود استعمال نہ کر رہا ہو لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اس کا ذمہ دارکون ہے کیا ملک کے موجودہ حالات اجازت دیتے ہیں کہ جعلی آئی ڈی بنائی اور استعمال کی جاسکیں مشال بھی ایک انسان تھا اس کا قتل بھی قابل مذمت ہے لیکن اس قتل کے اسباب کا ظہور پذیر ہونا اور متعلقہ اداروں کا بروقت حرکت میں نہ آنا اس سے زیادہ قابل گرفت ہے اس معاملہ میں پی ٹی اے کے آئی ٹی کے ماہرین کو بھی زیر تفتیش لایا جائے اور وجوہات ڈھونڈی جائیں کہ ایسی آئی ڈی کیوں بلاک نہیں ہوتی ہیں مشال کے زیراستعمال کمپیوٹر ،موبائل سمیت تمام اشیاءکا فرانزک تجزیہ کرایا جائے اور اس کام کو اسلام بیزار عناصر کے حوالے کرنے کے بجائے جذبہ ایمان سے سرشار ماہرین کے حوالہ کیا جائے ورنہ مشال ایسے ہی قتل ہوتے رہیں گے اور موم بتی مافیا ایسے ہی سوانگ رچاتا رہے گا۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں