مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر بھارتی رہنما بھی پھٹ پڑے
شیئر کریں
بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی کے چدم برم بھی گزشتہ روز مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت کے بہیمانہ مظالم پر پھٹ پڑے۔بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پی کے چدم برم نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے میری پوزیشن بالکل واضح ہے کہ ہم کشمیر کو کھو رہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت اور مقبوضة کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے کشمیر کے معاملے پر انتہائی خطرناک راستہ اپنا لیا ہے۔انہوں نے صاف صاف الفاظ میں واضح کیا کہ جو راستہ بھارتی اور ریاستی حکومت نے اپنا رکھا ہے اس سے وادی میں امن نہیں آ سکتا اور نہ ہی عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔سابق بھارتی وزیر نے نشاندہی کی کہ مقبوضہ کشمیر میں ضمنی الیکشن کے دوران تاریخ کا سب سے کم ٹرن آو¿ٹ اس بات کا اشارہ ہے کہ مودی سرکار کو آگے چل کر وادی میں مزید مشکل وقت دیکھنا پڑے گا۔ حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایک معتدل پالسی اپنانی چاہیے تھی۔کانگریس کے رہنما نے مودی سرکار اور مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حکومتوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق تمام اسٹیک ہولڈزر کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے، عوام کے خلاف فوج اور پولیس کواستعمال نہ کیا جائے۔چدم برم نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت کا اتحاد وادی میں اشتعال انگیزی کی پہلی بنیاد ہے، اس جوڑ کو ایک مقدس اتحاد کا نام دیا گیا جسے عوام نے مسترد کردیا جب کہ دوسری اشتعال انگیزی پی ڈی پی کی جانب سے عوام سے کیے گئے وعدوں سے مکرنا ہے۔
بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی کے چدم برم مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کے بہیمانہ مظالم پر تشویش کا اظہار کرنے والے تنہا نہیں ہیں ،اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ مودی کی حکومت واجپائی سے کئی درجے بدترہے اورکشمیر کے معاملے پربھارت تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارت ہمیشہ مسئلہ کشمیر پرہٹ دھرمی دکھاتا ہے، وقت آگیا ہے کہ کشمیرپرامریکی ثالثی کرائی جائے،انہوں نے کہاتھا کہ پاکستان اوربھارت میں پانی کا تنازع بھی توامریکیوں نے ہی طے کرایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کے دورمیں ہمیں مسئلہ کشمیرحل ہونے کی امید ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی حکومت واجپائی سے کئی درجے بدتر ہے، نہتے کشمیری مررہے ہیں اوراگر یہی پالیسی برقراررہی تومقبوضہ کشمیرکا مستقبل بہت تاریک ہوگا۔سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبد اللہ نے تسلیم کیا کہ میرے والد جمہوریت اوربرابری پریقین رکھتے تھے، بھارت سے وادی کے الحاق میں میرے والد کا کوئی کردارنہیں تھا، میرے والد کو جلد اندازہ ہو گیا تھا کہ بھارتی جمہوریت کھوکھلی ہے جب کہ بھارتی حکومت مجھے اور میرے والد کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔
بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی کے چدم برم اور مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر تشویش کااظہار اور بھارتی حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے ان مشوروں سے ظاہرہوتاہے کہ بھارتی فوج کے مظالم اس حد تک بڑ ھ چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کی سازشوں میں شریک اور معاون بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے پانی اب سر سے اوپر تک پہنچ چکاہے اور اب کشمیری عوام کو زیادہ دنوں غلام بناکر رکھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
او آئی سی کے جنرل سیکریٹری یوسف بن احمدنے بھی گزشتہ دنوں اپنے دورہ¿ پاکستان کے دوران مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ تمام مسلم ممالک کو اس صورت حال پر تشویش ہے اورمسئلہ کشمیراو آئی سی کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے،انہوں نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات میں گفتگو کے دوران یقین دلایاتھا کہ انسانی حقوق کمیشن کے دورہ کے لیے بھارت پر دباﺅ بڑھائیں گے۔گزشتہ سال نومبر میںیوسف بن احمد کو او آئی سی کا سیکریٹری جنرل چنا گیاتھااس طرح یہ منصب سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔جہاں تک او آئی سی کاتعلق ہے تو یہ درست ہے کہ او آئی سی اپنی افادیت بڑی حد تک کھوچکی ہے،کیونکہ یہ تنظیم اپنے قیام کے بعدسے اب تک عالم اسلام کا کوئی مسئلہ حل کرانے میں کوئی قابل ذکر ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ، تاہم اب جبکہ پوری دنیا خاص طور خلیج کے ممالک کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اسلامی ممالک کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے، او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے پر مجبور کرناچاہیے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت گزشتہ 70 برس سے مسلسل طاقت کے بل پر کشمیریوں کو دبانے اور اپنے قبضے کو دوام دینے کی کوشش کرتارہاہے لیکن کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو کچلنے اور انہیں اپنے حق خود ارادی سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے میں نہ صرف یہ کہ ناکام رہاہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں شدت آتی جارہی ہے ، آج ایک بار پھر ان کی جدوجہد عروج پر ہے۔ بھارت ان کی جدوجہد کو دبانے کے لیے بربریت اور جبر کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام سرجھکانے پر تیار نہیں ہیں،اور انہوں نے گزشتہ روز ضمنی انتخابات کے موقع پر انتخابات کابائیکاٹ کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ بھارتی حکومت کی جانب سے وادی پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،جس کا اعتراف بھارت کے سابق وزیر داخلہ چدم برم نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کیاہے ۔ضمنی انتخاب کے موقع پر کشمیری عوام کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنے کے دوران بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوانوں کی تعداد12ہو چکی ہے۔ کشمیریوں کی ان شہدا کے سوگ میں ہڑتال اور مظاہرے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی مقبوضہ وادی میں بھارتی سفاک سپاہ کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ بھارت نے او آئی سی انسانی حقوق کے وفد کو مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی۔ بھارت کی یہ ہٹ دھرمی چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف ہے۔ اسکے ان اقدام کو اس پر عالمی پابندیوں کے لیے جواز بنایا جا سکتا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ او آئی سی کے جنرل سیکریٹری یوسف بن احمد مسئلہ کشمیرحل کرانے کے لیے پورے عالم اسلام کو متحد کرنے اور اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کریں گے۔