میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں!

اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں!

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۷ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

برما کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس ملک میں تیل گیس کے ذخائر اور قیمتی پتھروں کی بہتات ہے۔ برما کے ساتھ 1824 تا 1885 تک تین جنگیں لڑنے کے بعد انگریزوں نے یکم جنوری 1886کو اس پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی باری تھی۔ انگریزوں نے برما کے سب سے بڑے ساحلی شہر رنگون کو اس ملک کا دارالحکومت بنا دیا۔ برما کے عوام نے جو زیادہ تر بدھسٹ ہیں۔ انگریزوں کی مسلسل مزاحمت کی لیکن آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔دوسری جنگ عظیم کی ابتدا 1942 میں پہلے جاپان نے برما کو روند ڈالا۔ اس کے بعد جولائی 1985 میں انگریزوں نے جواباًبرما کو دوبارہ فتح کر لیا جس میں ایک لاکھ 50 ہزار جاپانی ہلاک ہوئے۔ انگریزوں کے تسلط سے جان چھڑانے کے لیے برمی لگاتار قربانیاں دیتے رہے اور آخرکار چار جنوری 1948کو برما ایک آزاد ریاست بن کر دنیا کے نقش پر ابھرا لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں دو مارچ 1962 سے لے کر آج تک فوجی حکومت ہے ۔آج کے بربا میں موجود تقریبا 24 لاکھ مسلمانوں میں سے زیادہ ترہندوستان بنگلہ دیش اور چین سے آئے ہیں۔ کچھ مسلمان مشرق وسطیٰ سے آ کر بھی برما میں رہائش پزیر ہوئے لیکن سب سے پہلا مسلمان جو 1050 میں برما میں داخل ہوا اس کا نام بیات دی تھا جس کے بھائی کے دو بیٹوں کو اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ مذہب اسلام کے خلاف برما کے بادشاہ کے احکامات ماننے سے انکاری تھا ۔یہاں سے برما میں مسلمانوں کا قتل شروع ہوا ۔اس کے بعد مغل بادشاہ شاہجہاں کے بڑے بیٹے شجاع نے اپنے بھائی سے ڈر کر 70 ویں صدی عیسوی میں برما کے شہر اراکان کا رخ کیا تو وہاں کے بادشاہ سینڈ تھڈاما نے تقریبا تمام مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا لیکن شاہ شجاع بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
دراصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے خلاف برمی نفرت کی اصل ابتدا انگریزوں کے دور میں ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی۔ 1921 میں برما میں مسلمانوں کے خلاف موجودہ نفرت کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 1938کے مسلم کش فسادات کے دوران متعصب برمیوں کا نعرہ تھا ،برما صرف برمی لوگوں کے لیے ہے۔ 1962 میں جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل نی ون نے حکومت سنبھالی تو مسلمان فوج کو نکال دیا گیا جس سے مزید نفرتوں نے جنم لیا ۔انڈونیشیا میں جب مسلمانوں کے انتہا پسند گروپوں نے کارروائیاں کیں تو اس کا خمیازہ بھی برمامیں مسلم اقلیت کو بھگتنا پڑا ۔افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران جب بامیان میں بدھا کی عبادت گاہ اور بتوں کو توڑا گیا تو برمی بدھ مت ما نکس نے برما میں ہان تھا مسجد تباہ کرنے کا حکم دیا جسے زمین بوس کر دیاگیا اس کے بعد مسلمانوں اور بدھ مت کہ پیرو کاروں میں جھگڑے نے شدت اختیار کر لی اس کے بعد 1997میں مسلمانوں کی جانوں مساجد کاروباری مراکز اور جائیدادوں پر حملے شروع ہو گئے ان میں سے 15مارچ 2013 کو ایک برمی بدھسٹ مائکشن تھا کا بیٹا مارا گیا جس سے مسلم کش فسادات نے زور پکڑا تو برمی مسلمانوں نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ اس کے علاوہ آج بھی ایک لاکھ 10 ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما تھائی لینڈ سرحد پر نو کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی حکومت بدھ مت سیاست دانوں اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہیں۔ حال ہی میں وسطی معمار میں تقریبا 400 بدھسٹ کام مسلمان آبادی پر حملہ اس مذموم سازش کا حصہ تھا۔ شمالی مشرقی برما میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں۔ قران کریم نذر اتش کیے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اب ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ایسے موقع پر پاکستان کا موقف کیا ہونا چاہیے؟ ایک مکتبہ فکر تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں صرف اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے ۔انسانیت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ظلم و ستم میں پیش پیش رہنا، ہمارے ملکی مفاد میں نہیں۔ دوسرا مکتبہ فکر ہماری توجہ قائد اعظم محمد علی جنا ح کے فروری 1948ء میں اس خطاب کی طرف کرواتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مندرجہ ذیل نکات پر زور دیا تھا۔ دنیا کے تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہ رکھنا، دوم: ملکی اور بین الاقوامی امن کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا۔ سوم: دنیا کے مظلوم عوام کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مالی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا۔ پاکستانی آئین آرٹیکل 40بی اسلامی اتحاد ایشیا اور افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کے مشترکہ مفادات کی حمایت اور سارے بین الاقوامی جھگڑوں کے پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس لیے قائد اعظم کے فرمودات اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں ہم برمی مسلمانوں پر ظلم و ستم ان کی نسل کشی مساجد کی شہادت اور برما میں ہونے والے جانے ومالی نقصان کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ ان انسانیت سوز کارروائیوں کو روکا جائے۔ ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ برما کی حکومت اس نسل کشی میں برابر کی شرکت پر ان سے جواب طلبی کرے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھائیں ۔
پاکستان سمیت دنیا کی ہر مہذب قوم کو ایسے ظلم و ستم کے خلاف اس لیے آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ ایسی جارحیت کا نشانہ دنیا کا کوئی بھی ملک بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اپنے دوستوں کی تعداد کو بڑھا کر ہی ہم اپنی سلامتی کے خلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھنے والے احتجاج کے اہم نکات میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم بدھزم کو دنیا کا ایک پرامن مذہب سمجھتے ہیں جو اسلام کی طرح انسانیت کے خلاف مظالم کا بالکل پرچار نہیں کرتا۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ٹیکسلا اور گندھارا سے پھوٹنے والی بدھ مت کی قدیم تہذیبوں نے ہمیشہ انسانی اقتدار کا پرچم بلند کیا لیکن برما میں بدھ مت کی طرف سے مسلم کش بربریت کی سرپرستی اور برمی حکومت اور اس کے لیڈروں اقوام متحدہ مغربی طاقتوں او ائی سی اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی خاموشی ناقابل قبول ہے ۔دراصل عالمی طاقتوں کی دُہرے معیار ہیں۔ ان کی خاموشی کی چکی تلے ہزاروں لاکھوں انسان پستے ہیں۔ بے دردی سے ہلاک کیے جاتے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کے لیے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات ہی مقدم ہیں جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں برمی مسلمانوں کو انصاف دلوانے کے لیے اور بالخصوص فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اس کو لگام دینے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسلمانوں پر جس طرح کی بربریت اور مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلا جا رہا ہے اور اس پر عالمی برادری بالخصوص عرب ممالک تماشائی بنے ہوئے ہیں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کل ہمارا نمبر بھی ا سکتا ہے ۔ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں