میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایجنسی کی کارروائیاں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایجنسی کی کارروائیاں

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۷ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارتی حکومت نے بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی این آئی اے کا جموں میں دفتر قائم کر دیا ہے تاکہ حریت پسند کشمیریوں کے خلاف کار رو ائی میں تیزی لائی جائے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے نئی دہلی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جموں میں این آئی اے کے خصوصی ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ سسٹم(CCMS) کا افتتاح کیا۔
دوکشمیری نوجوانوں کے خلاف سرینگر کی عدالت میں فردم جرم دائر کر دی گئی ہے۔ این آئی ائے عدالت میں گاندربل کے رہائشی نوجوان عادل احمد پرے اورکولگام کے رہائشی باسط احمد ڈار کے خلاف فردجرم ان کے خلاف صورہ پولیس اسٹیشن سرینگرمیں درج ایک جھوٹے مقدمے میں دائر کی گئی ہے۔مودی حکومت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے اور ہندوؤں کی آبادکاری کیلئے کوشاں ہے۔نہتے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کر کے، کشمیریوں کو کشمیر سے بے دخل کر کے ، غرض ہر صورت میں وادی پر اپنا مکمل قبضہ چاہتی ہے۔ گویا بی جے پی کی قیادت میں ہندتوا حکومت ، نازی نظریہ سے متاثر ہوکر مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے ہر حد کو عبور کر چکی ہے اور اس مقصد کیلئے وہ اپنی ایجنسیوں کو استعما ل کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے ۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ” انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ”نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے ۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ” انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ”نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
بھارت کشمیر کی تقسیم کے خنجر سے کشمیر کے قلب کوگھائل کر رہا ہے۔ مودی حکومت کشمیرکے جغرافیہ کو بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسے کشمیرکی قانونی حیثیت کو بدلنے کا کوئی حق نہیں۔ اس ناروا اقدام کو بدلنا ہوگا۔ یہ صورتحال دیر تک جاری نہیں رہے گی۔ کشمیر میں ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ لوگوں کی خاموشی معنی خیز اور اسٹرٹیجک ہے۔ ان کی خاموشی بول رہی ہے جب کہ مودی حکومت سچ کو دبا رہی ہے۔جموں وکشمیر کے عوام تصادم، جنگ یا لا متناہی جھگڑا نہیں چاہتے بلکہ اپنا حق خودارادیت چاہتے ہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس کا وعدہ عالمی برادری نے کشمیریوں سے کر رکھا ہے۔ یوں تو مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو گزشتہ 72سال سے قتل، جبری گمشدگیوں، آنکھوں کی بصارت سے محرومی اور جنسی تشدد جیسے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن پانچ اگست 2019کے بعد مقبوضہ کشمیر کا پورا علاقہ مسلسل محاصرے، لاک ڈائون اور مواصلاتی ناکہ بندی کی زد میں ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین اور وہاں کے باشندے دونوں عذاب سے دوچار ہیں۔ وادی کشمیر کی مجموعی آبادی ستر لاکھ سے زائد ہے جن میں 97 فیصد مسلمان ہیں لیکن فی الوقت ان ستر لاکھ مسلمانوں کا بھارت کی سات لاکھ سے زائد مسلح افواج نے محاصرہ کررکھا ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے جاری کشیدگی میں پچاس ہزار سے زائد کشمیری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تعداد میں اضافہ اور دوسری طرف کشمیریوں کی شہادت اتنی زیادہ ہے کہ شہریوں اور فورسز کے درمیان تناسب ایک فوجی بمقابلہ چھ شہری سے تبدیل ہوکر ایک فوجی بمقابلہ ایک شہری ہو جائے گا۔بھارتی فورسز تلاشیوں کے بہانے مسلمانوں کے گھروں میں گھس جاتی ہیں اور پھر کوئی بہانہ بناکر گھروں کو بارودی مواد سے تباہ کردیتی ہیں۔ یہ ایسی زیادتیاں ہیں جو عالمی دنیا کو نظر نہیں آتیں یا وہ قصداً ان کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ نے اقوام متحدہ پر مسئلہ کشمیر کو اپنی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارے کی کشمیر سے متعلق قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکامی کی وجہ سے کشمیری عوام کو درپیش مشکلات اور مصائب اضافہ ہوا ہے۔عالمی ادارے کی قراردادوں میں کشمیری عوام کو انکے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں