پاک ایران تعلقات ۔۔شکوک وشبہات دور کرنے کی ضرورت
شیئر کریں
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف گزشتہ دنوں پاکستان کے سرکاری دورے پرآئے تھے ۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ سے امن و سلامتی، دہشت گردی کے سدباب اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں سمیت باہمی مفادات کے موضوعات پر مثبت اور مفید مذاکرات کیے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو اور پھر تقریب سے خطاب کے دوران بتایا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن ہماری طرف سے مکمل ہے، اگلا مرحلہ پاکستان نے مکمل کرنا ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے سی پیک منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ گوادر، چاہ بہار کو آپس میں منسلک کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پیش کش کی کہ ایرانی بینک پاکستان میں برانچیں کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ جواد ظریف نے یہ بھی بتایا کہ کلبھوشن یادیو کے بارے میں ایران کے پاس جتنی معلومات تھیں انہیں پاکستان کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں زور دے کر کہا کہ ان کا ملک پاکستان سے دوستی نبھائے گا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے بھارت کے ساتھ ایران کی بڑھتی ہوئی دوستی اور خاص طورپر چاہ بہار کی بندرگاہ بھارت کے حوالے کرنے کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان میں پیداہونے والے شکوک وشبہات کے حوالے سے صحافیوں کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ایران کی سرزمین کبھی بھی اور کسی بھی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جس طرح پاک سعودی دوستی پاک ایران تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی اورسعودی عرب کے ساتھ قریبی دوستی کے باوجود پاکستان ایران کامخلص دوست ہے اسی طرح بھارت کے ساتھ ایران کی دوستی پاک ایران تعلقات پر کسی طوربھی اثرانداز نہیں ہوگی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ، برادر اسلامی ملک ہے، کہنے کو افغانستان کے ساتھ بھی ہمارا وہی رشتہ ہے، لیکن کابل کے برعکس تہران پاکستان کے لیے کبھی بھی پرابلم نہیں بنا۔ ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اس کی قیادت نے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اگر مگر کی زبان کبھی استعمال نہیں کی۔ کچھ عرصہ قبل صدر حسن روحانی نے بھارت کا دورہ کیا، اس کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے اسلام آباد بھی رکے، اس موقعہ پر انہوں نے ایک سوال کے جواب میں صاف صاف کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں، وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی گزشتہ روز اسلام آباد میں، ایران کے خارجہ تعلقات کے ضمن میں ایک سوال کے جواب میں واضح کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ ہمارے فائدے میں ہیں اور ایران یہ کہنے میں حق بجانب بھی ہے اس لیے کہ امریکا اور مغربی ملکوں کی پابندیوں کے باوجود بھارت نہ صرف ایران سے تیل خریدتا رہا بلکہ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی قائم رکھے۔اس کے برعکس ہم توانائی کے بحران سے دوچارہو کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتے رہے، لیکن پاکستان ایران گیس پائپ لائن کو امریکی ’’ناراضگی‘‘ کے خوف سے مکمل کرنے سے گریز کیا۔یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ جس طرح عوامی جمہوریہ چین نے ہر موقع پر ہر سطح پر پاکستان کاساتھ دیا ہے اسی طرح ایران نے بھی ہر مشکل وقت میںپاکستان کاکھل کر ساتھ دے کر دوستی نبھائی ہے،یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پاکستان شدید مالی مشکلات کاشکارتھا اورسعودی عرب دیرینہ دوستی کے باوجود پاکستان کو رعایتی نرخ تو کجا روایتی نرخ یعنی بازار کے بھائوپر بھی ادھار پر تیل دینے سے گریزاں تھا ایران نے پاکستان کی مدد کی اور اسے بحران سے نکلنے میں اس کاساتھ دیا، عالمی فورمز پر بھی ایران نے کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کی حمایت کی ہے۔
اب جبکہ امریکا کے جنونی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجنونانہ کارروائیوں کی وجہ سے ایران اور پاکستان دونوں ہی اس کے نشانے پر ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ایران جیسے مخلص دوستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کومضبوط بنانے اور ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرنے پرتوجہ دے تاکہ امریکا اور اس کی ایما پر مغربی ممالک کی جانب سے کسی بھی انتقامی کارروائی کی صورت میں اس کاڈٹ کر مقابلہ کیاجاسکے اورماضی کی طرح امریکا کی ایک دھمکی پراسے ڈھیر نہ ہونا پڑے۔
ایران کے موجودہ روئیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے قریب آنا، غلط فہمیاں دور کرنا اور ترقیاتی اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں میں اشتراک کرنا چاہتا ہے، پاکستان کوایرانی رہنمائوں کی اس خواہش کااحترام کرتے ہوئے خیرسگالی اور فراخدلی کے جذبے کے تحت اس کاجواب دینا چاہئے،پاکستانی حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ آج دنیا کے اصول تبدیل ہوچکے ہیں، کسی ایک ملک کے ساتھ دوستی پر دوسرے دوست خاص طورپر قریبی پڑوسی کی دوستی کاہاتھ جھڑکنے سے گریز کرنا چاہئے،پاکستانی حکمرانوں کویہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ امریکا پاکستان کے گرد جس طرح گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کررہاہے اس کے پیش نظر پاکستان کوزیادہ سے زیادہ قابل اعتبا ر دوستوں کی ضرورت ہے اورایران کے رہنما پاکستان کے ساتھ بے لوث دوستی کابار بار اظہار کرچکے ہیں ، ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ موجودہ صورت حال میں امن وخوشحالی کا دارومدار مغربی ایشیائی ممالک کے تعاون میں مضمر ہے۔ بھارت ہزار کلو میٹر دور ہو کر ایران کی مضبوط معیشت سے استفادہ کر رہا ہے اور ہم ایک فٹ کا فاصلہ نہ ہونے کے باوجود قریبی تعلقات کی برکات سے محروم کیوںہیں۔ خارجہ پالیسی کے معماروں کو پاک ایران تعلقات میں موجود دراڑوں کو پْر کرنے کے لیے ٹھوس اور جامع اقدامات کرنے چاہئیں۔ کوئی بعید نہیں کہ ایسے قریبی تعلقات آگے چل کر مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی معاون ثابت ہو سکیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ اوروزارت خارجہ کے دیگر ارباب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔