میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حسین حقانی کے انکشافات کی کھلی تحقیقات ضروری ہے

حسین حقانی کے انکشافات کی کھلی تحقیقات ضروری ہے

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

واشنگٹن پوسٹ میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے مضمون کی اشاعت کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے خاص طورپر پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں اور ن لیگ کو پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ایک بڑا ہتھیار مل گیا ہے، جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے میمو گیٹ اسکینڈل اور سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حالیہ مضمون کی اوپن انکوائری کے لیے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ مو¿قف اختیار کیا کہ حسین حقانی نے اپنے مضمون میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں بہت کچھ لکھا اوراُس وقت کے 2 انتہائی اہم عہدوں پر بیٹھے افراد پر الزامات لگائے۔اس مضمون سے ظاہرہوتاہے کہ اُس وقت کے وزیر داخلہ بھی اس میں ملوث تھے اور دبئی اور واشنگٹن میں بیٹھ کر امریکیوں کو ویزے دیے گئے جبکہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے حسین حقانی کو ‘غدار’ قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ مسئلہ قومی سلامتی کا ہے، حسین حقانی نے پہلی مرتبہ قومی سلامتی پر حملہ نہیں کیا، میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں حسین حقانی واپس آنے کی شرط پر بیرون ملک گئے لیکن واپس نہیں آئے، اس پر میڈیا کی موجودگی میں تفصیلی بات کی جائے۔وزیر دفاع نے معاملے کو ‘گمبھیر’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے اس طرح سے نہیں چھوڑا جاسکتا، اس سلسلے میں پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے جو اس معاملے کی اوپن انکوائری کرے۔انہوں نے کہا کہ پیر کو ایوان میں اس معاملے پر بحث کروائی جائے، ‘میں بھی پالیسی بیان دوں گا اور اس معاملے کی ساری تفصیلات ایوان کے سامنے رکھوں گا’۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیشن چاہے تو کسی بھی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر ایوان میں بات ہونی چاہیے، اس پر پیپلز پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں، ہم پارلیمان کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میموگیٹ کی تفصیلات بھی سامنے آنی چاہئیں جبکہ اس حوالے سے بھی بات ہونی چاہیے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے کس کس کے ساتھ تعلقات تھے۔پاکستان تحریک انصاف نے بھی پارلیمانی کمیشن کے قیام کی حمایت کی، ساتھ ہی پی ٹی آئی نے میمو گیٹ کمیشن اور خبر لیکس کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے کہا کہ ان رپورٹس کو پارلیمانی کمیشن بننے سے پہلے عام کیا جائے ۔متحدہ قومی موومنٹ نے بھی پارلیمانی کمیشن کے قیام کی حمایت کی اور ایم کیو ایم رہنما شیخ صلاح الدین نے کہا کہ تفصیلات ایوان کے سامنے آنی چاہئیں۔
خواجہ آصف کی جانب سے حسین حقانی کے انکشافات کے حوالے سے کھلی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کسی بھی اعتبار سے غلط قرار نہیں دیاجاسکتا،کیونکہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے عہدے پر فائز کسی بھی فرد سے یہ امید رکھنا غلط نہیں ہے کہ وہ متعلقہ ملک میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کرے گا بلکہ اگر متعلقہ ملک میں پاکستان کی حکومت کی کسی پالیسی کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات جنم لے رہے ہوں تو ان کی وضاحت کرکے ان کاخاتمہ کرنے کی کوشش بھی کرے گے نہ کہ اس ملک کی جس نے اپنے نمائندگی کے لیے اسے تعینات کیا ہے اور اس کے عوض بھاری تنخواہ اور پرکشش مراعات دے رہاہے اسی کی مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے دوسرے ملک کے مفادات کو اپنے ملک کے مفاد پر ترجیح دے کر اپنے ملک کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا، واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں حسین حقانی نے دعویٰ کیا کہ اوباما انتظامیہ سے ان کے ‘روابط’ کی وجہ سے ہی امریکہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ 2016ء کے امریکی انتخابات سے قبل اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے حسین حقانی نے لکھا کہ انہوں نے بھی 2008ءکے انتخابات میں سابق صدر اوباما کی صدارتی مہم کے ارکان کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات استوار کیے تھے۔انہوں نے لکھا، ‘ان روابط کی بناپر ان کی بحیثیت سفیر ساڑھے 3 سالہ تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون ہوا اور آخرکار امریکہ کو پاکستان کی انٹیلی جنس سروس یا فوج پر انحصار کیے بغیر اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی۔حسین حقانی کی یہ تحریر جس سے وہ ابھی تک انکاری نہیں ہےں ان کا اعتراف جرم ہے اور اس کو بنیاد بناکر ان کے خلاف نہ صرف یہ کہ کارروائی کی جاسکتی ہے بلکہ حکومت کو ان کے خلاف بلاتاخیر کارروائی کا آغاز کردینا چاہیے تاکہ اس حوالے سے کسی کے ذہن میں کسی طرح کے شکوک وشبہات نہ رہیں،اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی حسین حقانی سے لاتعلقی کا اعلان کرچکی ہے اورسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ حسین حقانی کو ملک سے باہر کیوں جانے دیا گیا جبکہ میموگیٹ اسکینڈل سے تعلق کے باعث ان کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل تھا لیکن چونکہ ان کی تقرری پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی ان کے اس دور کے قول فعل سے خود کو مکمل طورپر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ۔مجوزہ پارلیمانی کمیشن کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ حسین حقانی کے تقرر اور بعد ازاں امریکہ میں ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کی پشت پناہی پارٹی کے کون سے عناصر کررہے تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کس حد تک آگاہ تھی ،اگر یہ ثابت ہوجائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنما حسین حقانی کی سرگرمیوں سے واقف تھے اورانہوں نے جان بوجھ کر ان سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی تو ان کے خلاف بھی کارروائی سے اجتناب برتنے کا کوئی جواز نہیں ہے اسے بھی برابر کاشریک جر م تصور کرتے ہوئے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجانا چاہیے۔
صورتحال کے اس تناظر میںدیکھا جائے توحکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر علی شاہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے دائر کی گئی درخواست کو بلاجواز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ سپریم کورٹ میںدائر کی جانے والی اس درخواست میں وفاق، وزارت دفاع، وزارت خارجہ، سیکریٹری داخلہ، وزارت قانون، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور حسین حقانی کو فریق بنایا گیا ہے اور درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جائے۔درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وزارت داخلہ اور وزارت قانون سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کے لیے اقدامات کرے جبکہ وفاقی حکومت ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائے۔درخواست گزار نے یہ استدعا بھی کی ہے کہ حسین حقانی نے بطور سفیر تعیناتی کے وقت جتنے امریکیوں کو ویزے جاری کیے ان کی تفصیلات طلب کی جائیں۔درخواست گزار نے مو¿قف اپنایا کہ میمو کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی پہلے ہی اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔ درخواست گزار ظفر علی شاہ نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔
اب یہ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کا کام ہے کہ وہ ا س درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا تعین کریں ،لیکن بظاہراس کے قابل سماعت ہونے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی ، عدالت کو اس پر غور کے بعد اس کی کھلی سماعت کرنی چاہیے تاکہ عوام کو اپنے آستین کے سانپوں کاچہرہ پہچاننے میں آسانی ہو اور اقتدار میں رہتے ہوئے ملک وقوم کے مفادات کاسودا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں