مودی کے ارمان بمقابلہ ہندوستان کا کسان
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
ایودھیا میں رام نام جپنے سے اطمینان نہیں ہوا تو ایوانِ پارلیمان میں رام کا راگ چھیڑ دیا گیا۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو مودی جی ابوظبی میں مندر کے افتتاح کی خاطر نکل پڑے لیکن اسی شبھ مہورت پر کسانوں نے بھی لاولشکر کے ساتھ دہلی کی جانب کوچ کردیا اور رنگ میں بھنگ پڑگیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں ۔ اس نحوست سے نکلنے کے لیے وہ حزب اختلاف کے رہنماوں کو توڑ توڑ کر اپنے ساتھ لے رہے ہیں لیکن بات نہیں بن پارہی ہے ۔ رام مندر پر حزب اختلاف کو گھیرنے کے لیے انہوں نے سونیا گاندھی اور ملک ارجن کھڑگے کو دعوت دے کر ایک جال بچھایا کہ آئیں تب بھی مشکل اور انکار کردیں تب بھی پریشانی مگر شنکر اچاریہ کی مخالفت کے جال میں مودی جی خود پھنس گئے ۔ اس کے بعد ابوظبی کے مندر کو بھنانے کی کوشش چل رہی تھی کہ کسانوں نے مودی کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔ کسانوں کی تحریک کا یہ پونر جنم ہے ۔ پہلی بار دہقان تین کالے قانون کے خلاف میدان میں اترا تھا۔ قانون بنانا اور اس کو واپس لینا یہ سرکاروں کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے لیکن مغرور مودی حکومت نے چار سو تیس دنوں تک اپنی بے عزتی کروانے کے بعد اسے واپس لیا مگر کوئی سبق نہیں سیکھا۔
مودی سرکار کا سابقہ فیصلہ کسانوں کے مفاد میں نہیں بلکہ اترپردیش انتخاب کے پیش نظر تھا۔ اس وقت مغربی اترپردیش کے دیہاتوں میں بی جے پی رہنماوں کا گھسنا دوبھر ہوگیا تھا اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق مرکزی حکومت جھکنے پر مجبور ہوگئی اور جن کو آندولن جیوی (مظاہرہ کے محتاج ) کہہ کر خود وزیر اعظم نے ذلیل کیاتھا بالآخر انہیں کے سامنے خودرسوا ہو گئی ۔ مودی جی کو اگر اپنی رسوائی یاد ہوتی تو وہ پھر سے کسانوں کی موجودہ تحریک کو کچلنے کی سعی نہیں کرتے ۔ وزیر اعظم کا دماغ فی الحال آسمان میں ہے اس لیے انہوں نے کسانوں کی کلہاڑی پر پیر مار کر خود کو زخمی کرلیا ہے ۔ ہندوستانی کسانوں کی موجودہ تحریک اور گزشتہ کا فرق سمجھنے کے لیے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھنا ضروری ہے ۔ اس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے کہ ایک زمانے میں گوتم اڈانی اناج بیچا کرتے تھے اور مودی کی مدد سے لاکھوں کروڈ کا مالک بن جانے کے باوجود اپنی پہلی تجارت کی محبت ان کے دل میں موجود ہے بلکہ خوب توانا ہوگئی ہے ۔ اڈانی اور ان جیسے بڑے سرمایہ داروں کی خوشنودی کے لیے 2020ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ تین زرعی بلوں کے خلاف پچھلی مرتبہ کسانوں کو احتجاج کے لیے میدان میں اترنا پڑا تھا۔ اس وقت ملک بھر کی 500 سے زیادہ کسان تنظیموں کے غیر معمولی اتحاد ومزاحمت نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا ۔
کسان احتجاج کا پس منظر یہ تھا کہ جون 2020 کے وسط میں، حکومت ہند نے زرعی مصنوعات، ان کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، زرعی مارکیٹنگ اور زرعی اصلاحات سے متعلق معاہدے کے تین فارم آرڈیننس نافذ کیے جنھیں 15 اور 18 ستمبر 2020 کو ایوان زیر یں میں منظوری ملی اور 20 و 22 ستمبر کو ایوانِ بالا میں بھی وہ منظور کر لیا گیا۔ صدرمملکت نے 28 ستمبر 2020 کواس پر دستخط کرکے اسے قانون میں تبدیل کر دیا۔کسانوں کے خلاف ان قوانین کی کڑوی گولی پر کمال مکاری کے ساتھ شکر کی پرت چڑھائی گئی تھی۔ پہلے قانون کو کاشتکار کے پیداوار اور تجارت میں ترغیبات اور سہولیات نام دیا گیا تھا حالانکہ ان کے تحت بڑے سرمایہ داروں کی خاطر آسانیاں فراہم کی گئی تھیں ۔ دوسرے قانون میں انشورنس کی آڑ لے کر کسانوں کے اختیارات اور تحفظ پر شب خون مارا گیا تھا ۔ تیسرے قانون میں سرمایہ داروں کے لیے ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کو تحفظ فراہم کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ مودی سرکار کی اس مکاری کو دہقان سمجھ گئے اورکسانوں نے اپنے مطالبات کو منوانے کی خاطر تحریک چھیڑ دی ۔ان کا اولین مطالبہ تو یہ تھا سب سے پہلے تینوں زرعی قوانین منسوخ کیے جائیں۔ اپنے اس مقصد میں تو انہیں کامیابی مل گئی مگر اس کے ساتھ کیے جانے والے مطالبات کو تسلیم کرنے کے باوجود کسی پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
کالے قوانین کو ہٹانے کے علاوہ سب سے اہم مطالبہ اناج کی کم سے کم قیمتِ خرید (ایم ایس پی) کو یقینی بناکر حکومت کے ذریعہ فصلوں کی خریداری کو قانونی حیثیت دینا تھا۔ سرکار اس وعدے کو پوری طرح بھول گئی اور ہنوز روایتی خریداری کے نظام کو جاری رکھنے کی یقین دہانی نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے صوبوں مثلاً بہار وغیرہ میں یہ ناپید ہے اور بہت کم قیمت میں کسانوں سے اناج خریدا جارہا ہے ۔ اس سے متعلق کسان تحریک کا دوسرا اہم مطالبہ سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد تھا ۔ موجودہ سرکار نے کمیشن کی سفارش یعنی کسان کے خرچ سے ڈھائی گنا زیادہ قیمت خریدکو تو کوڑے دان میں ڈال دیا مگر سوامی ناتھن کو بھارت رتن پکڑا دیا۔ کسانوں کا اس بھارت رتن سے کیا لینا دینا؟ ان کو سوامی ناتھن کی مجوزہ قیمتِ خرید چاہیے وہ مل جائے انہیں خوشی ہوگی ورنہ اگر سرکار چودھری چرن سنگھ کو بھی اعزاز سے نوازے سے ان کا کیا بھلا ہوگا؟ یہ جھنجھنا تو بیچارے جینت چودھری کے بھی کام نہیں آئے گا جو کسان دشمن سرکار کی گود میں جاکر بیٹھ گیا ہے ۔ اب جینت چودھری کے ساتھ بھی کسان وہی سلوک کریں گے جو اپنی دشمن بی جے پی کے ساتھ کیا جائے گا۔
کسانوں نے سرکار سے مانگ کی تھی کہ زرعی استعمال کے لیے ڈیزل کی قیمتوں میں 50٪ کی سہولت دی جائے ۔ وہ تو نہیں ہوا الٹا ایندھن کی قیمت مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ہریانہ اور پنجاب میں جلائی جانے والی پرالی کے لیے جو کسان گرفتار کیے گئے تھے یا جن پر جرمانہ لگایا تھا اس کے خاتمہ کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔پاور آرڈیننس 2020 کوختم کرنے اور مرکز کو ریاستی امور میں مداخلت سے منع کیا گیا تھا مگر اس میں اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار کسان سرکار کو پرانے وعدے یاد دلاکر اس کی وعدہ خلافی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں ۔ کسانوں نے اپنی حالیہ تحریک میں چونکہ زرعی مزدوروں کو بھی شامل کرلیا ہے اس لیے ان کے حوالے سے یہ مطالبہ کیا جارہاہے کہ حکومت کی جانب سے کام دینے والی اسکیم منریگا کے تحت سال میں کم ازکم 200 دن کا کام فراہم کیا جائے اور یومیہ اجرت 700 روپے کی جائے ۔ موجودہ حکومت غریبوں کو کام دے کر عزت و وقار کی روزی کمانے کا موقع دینے کے بجائے مفت میں پانچ کلو اناج بانٹ کر احسانمندی کا ناٹک کرتی اور اس کے عوض ان سے ووٹ مانگ کر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے ۔
آسمانی آفات کی صورت میں کسانوں کو فصل اگانے پرخرچ ہونے والی لاگت پر 50 فیصد منافع دینے کا مطالبہ بھی کسانوں نے اس بار کیا ہے اور اس کے علاوہ قرض کی معافی کا تقاضہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ فطری مطالبہ ہے کیونکہ اگر حکومت سرمایہ داروں کے لاکھوں کروڈ کا قرض معاف کرسکتی ہے تو بیچارے کسان کو اس کے لیے خودکشی پر کیوں مجبور کیا جائے ؟ پچھلی مرتبہ کسانوں کے مطالبات کا منظور ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے تحریک جائز حقوق کے حصولیابی کے لیے تھی اس لیے اس دوران ان پر جو مقدمات درج ہوئے تھے ان کی واپسی بالکل فطری شئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو پھر سے سرپر کفن باندھ کے میدان میں اترنا پڑا۔تین سال بعد کسان دہلی کی جانب چلے تو انہیں چین یا پاکستان کی سرحد سے بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کا انتظام لداخ یا اروناچل میں کیا جاتا تو چین دراندازی نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی سرکار اپنے کسانوں کو ملک کا چین سے بڑا دشمن سمجھتی ہے ۔ ہریانہ کی بی جے پی حکومت نے اول تو کسانوں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی اور پھر اپنے صوبوں میں دہقانوں کو احتجاج سے روکنے کے لیے ان کء ٹریکٹر اور پاسپورٹ ضبط کرنے کی دھمکی دے کر انگریزوں کو بھی شرمندہ کردیا۔
حکومت نے فی الحال دہلی کی سرحد کو تینوں جانب سے سیل کر رکھا ہے ۔ پنجاب اور ہریانہ کی شمبھو بارڈر پر پولیس نے کسانوں پر ڈرون سے آنسو گیس کے گولے پھینکے اور خوب جم کر لاٹھیاں برسائیں۔ اس پراکھلیش یادو نے لکھا کہ ‘بی جے پی حکومت کسانوں کی تحریک کے لیے کیلیں ٹھونک رہی ہے ۔ پوری دنیا بی جے پی کی جابرانہ پالیسیوں کو دیکھ رہی ہے ۔ آزادی کی راہ میں بچھائی گئی خاردار تاروں نے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ کو داغدار کیاہے ۔’ کانگریس کے صدرملکارجن کھڑگے نے ایکس پرلکھا کہ ‘خاردار تاریں، ڈرون سے آنسو گیس، کیل اور بندوقوں کے انتظام سے ، مودی حکومت کسانوں کی آواز پرلگام لگا رہی ہے ‘۔کسان تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کرنے کے بعد انہوں نے کہا اتحاد کی آواز لوہے کے کیل پگھلا دے گی’۔راہل گاندھی نے ایم ایس پی گارنٹی دے کر مودی کی ساری کھوکھلی گارنٹیوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ دہلی کی جانب ٦ ماہ کا اناج پانی لے کر نکلنے والے لاکھوں کسانوں میں سے ایک نے بی بی سی کے نامہ نگارکو بتایا کہ ‘وہ یا تو اپنی مانگیں منوا کر آئیں گے یا پھر مودی حکومت کو گرا دیں گے کیونکہ انتخابات آنے والے ہیں’۔کسانوں کی پچھلی تحریک نے سابق وزیر زراعت نریندر تومر کی چھٹی کردی تھی اس باران کے استاد نریندر مودی کی باری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔