کیاامریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت ہے ؟
شیئر کریں
عالمی سیاست میں دو ممالک کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور جیسے ہی ایک ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ مفاد ختم ہوجاتاہے تو عین اگلے ہی لمحے سفارتی تعلق کا بھی از خود ہی خاتمہ بالخیر ہونے کا دونوں اطراف سے اعلان کردیاجاتا ہے۔دنیائے سیاست کا یہ ایک ایسامسلمہ اُصول یا کائناتی سچ ہے ،جس میں کبھی بھی کوئی تغیر یا تبدل واقع نہیں ہو سکا۔ یعنی نظام ہائے حکومت اور سیاست کے انداز بھلے ہی زمانہ کے سرد و گرم کے ساتھ بدلتے رہے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ بس یہ ہی ایک اُصول ِ سیاست و جہاںبانی ہے۔ چونکہ ہم سے کئی ہزار میل دور واقع امریکا کے ساتھ پاکستان کے مفادات کا توازن حالات کی نوعیت کے حساب سے افراط و تفریط کی نظر ہوتا رہا ہے اس لیے شروع دن سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات بھی زبردست اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ۔ کبھی تو ہم امریکا کے اِس قدر قریب آجاتے ہیں کہ من و تو تفریق ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور کبھی اِن دونوں ممالک کے درمیان قائم سفارتی تعلقات میں سات سمندر جتنی وسیع خلیج حائل ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستانیوں نے امریکا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں جب امریکی بحری بیڑہ ہماری مدد کو نہ آسکا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ امریکا نے اپنے جس ہاتھ سے ہمارے دوستانہ ہاتھ کو تھاما تھا ،وہ تو اُلٹا ہاتھ تھا ۔ جس پر ہمیں صدمہ تو ضرور ہوا مگر بہرحال پاک امریکا دوستی ؎جوں کی توں برقرار رہی ۔کچھ عرصے بعد 1971 کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے ہمارے ساتھ جو ’’سفارتی ہاتھ‘‘ کیا ، اُس کی وجہ سے ہمارا ملک دو لخت ہوگیااور ہمارا دیرینہ دوست کہلانے کا دعوی دار، امریکا، کہیں بہت دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا۔ حالانکہ ہم نے اسی برس امریکا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب 1971 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر مری سے خفیہ طور پر بیجنگ پہنچے تھے اور پھر اسلام آباد واپس آ گئے تھے مگر امریکی حکام کی جانب سے دنیا بھر کو باور یہ کروایا گیا تھا کہ وہ علیل ہو گئے ہیں اور مری میں مقیم ہیں۔جبکہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنے سفارتی معاملات کو پاکستانیوں کی معاونت کے ساتھ درست فرمارہے تے۔ بعدازاں ان کے اسی شہرہ آفاق خفیہ دورہ ہی کی بدولت صدر نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ تاریخ کا یہ باب بین الاقوامی امور میں ایک سنگ میل ثابت ہوا، مگر افسوس ہماری غیر معمولی دوستانہ سفارت کاری کے جواب میں امریکا اتنا بھی نہ کرسکا کہ بھارت اور روس مل کر سقوطِ ڈھاکہ کا جو خفیہ پلان ترتیب دے رہے تھے، اُس پلان کی تفصیلات سے ہی ہمیں پیشگی آگاہ کردیتا ۔جبکہ امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سقوطِ ڈھاکہ کے پلان سے پوری طرح باخبر ہی نہیں تھی بلکہ اسے تہہ و بالا کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی تھی۔
دراصل امریکا نے پاکستان کے ساتھ قائم سفارتی تعلقات میں فقط اُسی وقت گرم جوشی دکھائی ہے ، جب اُسے پاکستان کے ساتھ اپنا کوئی اہم مفاد وابستہ دکھائی دیا۔ جیسے 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ ہونے کے بعد امریکا نے ہم پر اپنی محبت کے وہ ڈورے ڈالے کہ ہم امریکا کے لیے اُس وقت کی عالمی سپر پاور سے میدانِ جنگ میں اُلجھ پڑے ۔ اگر پاکستان سوویت یونین کو شکست نہ دیتا تو کیا امریکا آج واحد عالمی طاقت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوسکتا تھا؟۔ اس بارے میں اگر امریکا ایک بار بھی سوچ لیتا تو وہ کبھی سرد جنگ کے بعد پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کے ہجوم میں تنہا چھوڑ کر نہ جاتا۔ سرد جنگ کے بعد امریکا نے کبھی ہماری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا، تاآنکہ امریکا میں نائن الیون کا سانحہ رونما نہ ہوگیا۔ 2001 میں اسامہ بن لادن سے ہزاروں امریکیوں کی موت کا بدلہ چکانے کے لیے امریکا کو ہماری ضرورت پڑی اور یوں ایک بار پھر سے پاکستان کو امریکا نے اپنا سب سے بڑا اتحادی اور دوست قرار دے دیا ۔
امریکا کے ساتھ ہم نے یہ دوستی 20 برس تک پوری امانت داری اور جاں فشانی کے ساتھ نبھائی ،جس کی وجہ سے دہشت گردی کی جنگ افغانستان سے ہماری دہلیز تک آپہنچی ۔ جسے ہم نے ہزاروں شہیدوں کی قربانی دے کر بالآخر جیت ہی لیا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی فقید المثال کامیابی کو بھی امریکا نے ہمیشہ شک و شبہ اور بے اعتباری کی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کی اور کبھی کھلے دل سے ہماری کامیابیوں کا اعتراف کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حد تو یہ ہی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء میں جو غیر معمولی دستِ تعاون ہم نے امریکی حکام کو بہم پہنچایا ، بعدازاں اُسے بھی تسلیم کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ پاک امریکا تعلقات کی تلخ و شیریں تاریخ کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک انٹرویو میں یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ ’’امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے استعمال کیا اور امریکا کو جب اور جہاں ضرورت پڑی ہمیں اپنا دوست بنایا اور جب اُس کا مطلب نکل گیا توچھوڑ دیا‘‘۔ وزیر اعظم پاکستان کو یہ الفاظ اس لیے ادا کرنا پڑے کہ جب سے وہ چین کے دورے پر گئے ہیں امریکا نے پاکستان کو ایک بار پھر سے اسٹریٹجک پارٹنر کہنے کی گردان شروع کردی ہے ۔
دراصل اس مرتبہ واشنگٹن کا اسلام آباد سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے برسوں پرانے سفارتی تعلقات کو منقطع کر کے اُس کے کیمپ میں شمولیت اختیار کرلیں اور اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے واشنگٹن دھونس اور دھمکی سے لے کر لالچ تک ہر حربہ اسلام آباد پر آزما نے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن مگر اسلام آباد کسی بھی صورت بیجنگ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر آمادہ نہیں۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاک و امریکا تعلقات کی پوری تاریخ میں کسی پاکستانی وزیراعظم نے پہلی بار چین کی خاطر امریکی صدر کے سامنے ابسلوٹلی ناٹ یعنی حرفِ انکار کیا ہے۔ یقینا اس جملے کو سننے کی اُمید ایک پاکستانی وزیراعظم سے امریکی صدر جوبائیڈن نے کبھی خواب و خیال بھی نہ کی ہوگی۔ خاص طور پر بیجنگ میں بیٹھ کر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا امریکا سے گلے شکوے کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیناکہ ’’ سردجنگ میں امریکی اتحادی ہونے کی جو بار بار قیمت چکانا پڑی، اب دوبارہ پاکستان ایسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔بہت غیر معمولی بات ہے اور شاید یہ اسی جملے کی تلخی ہے جسے محسوس کرنے کے بعد امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کا سنہری یادیں بارِ دگر شدت سے یاد آنے لگی ہیں ۔
دوسری جانب بھارت کی فطری بزدلی بھی ایک ایسی وجہ ہے ،جس نے امریکا کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اُسے چین کے خلاف اپنا اسٹریٹجک پارٹنر جلد ازجلد بدل دینا چاہیے۔ دراصل واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں بڑی تیزی کے ساتھ یہ تاثر مستحکم ہوتا جارہا ہے کہ چین کے خلاف بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنانے کا فیصلہ ،امریکا کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ کیونکہ چین جیسے بڑے اور باصلاحیت ملک کے خلاف سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کے لیے جس ہمت و حوصلہ کی ضرورت ہے۔ وہ کم ازکم بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت میں تو سرے سے موجود ہی نہیںہے۔جس کا اندازہ امریکیوں کو وادی لداخ میں اپنا ہزاروں مربع میل کا علاقہ گنوانے کے بعد چین کے ہاتھوں حاصل ہونے والی سبکی اور رسوائی سے بخوبی ہوگیا ہے۔ نیز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی روایتی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف اختیار کی جانے والی اُن کی متعصبانہ سیاست کی وجہ سے بھی بھارت میں داخلی طور پر اتنی زیادہ ریاست مخالف تحریکیں پیدا ہوچکی ہیں کہ جن کی موجودگی میں جب بھارت کو اپنا ریاستی ڈھانچہ برقرار رکھنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کر پڑرہا تو ایسی صورت حال میں وہ متحد ویکجان چینیوں کے خلاف امریکا کی جنگ کیسے لڑ سکے گا؟۔
امریکی حکام کی دانست میں نئی دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد چین کے خلاف اس لیے بھی ایک بہتر آپشن ثابت ہوسکتاہے کہ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں میں کئی بڑی عالمی جنگوں میں کامیاب اور سرخرو رہا ہے اور میدانِ جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونا کا جتنا عملی تجربہ پاکستانی فوج کو حاصل ہے ،شایدہی آج کی دنیا میں کسی دوسرے ملک کی فوج کو اتنی عسکری مہارت حاصل ہو۔ پاکستان کی یہ غیر معمولی صلاحیتیں ایک بار پھر سے امریکا کاجی للچارہی ہیں اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے خلاف اُس کے اسٹریٹجک کیمپ کا حصہ بن جائے ۔ مگر امریکا کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت چین پر امریکا کو ترجیح دینے پر تیار نظر نہیں آتا ۔وزیراعظم پاکستان عمران خان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’’امریکاکے ساتھ پاکستان کو مستقبل میں کس نوعیت کے دفاعی و سفارتی تعلقات استوار کرنا چاہیے ،اس موضوع پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہئے‘‘۔وزیراعظم پاکستان کے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اسلام آباد ،واشنگٹن سے کس قدر نالاں ہے۔دراصل عالمی منظرنامہ میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال دنیا کے ہر ملک کو مجبور کررہی ہے کہ وہ چین یاامریکا میں سے کسی ایک ملک کا انتخاب کرلے ۔ یقینا پاکستان امریکا اور چین میںسے کس کیمپ کا رخ کرے گا ہم سب بخوبی جانتے ہیں لیکن شاید یہ چھوٹی سی بات امریکا نہیں جانتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔