میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بائیڈن کی افغان پالیسی

بائیڈن کی افغان پالیسی

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۷ فروری ۲۰۲۱

شیئر کریں

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے وائٹ ہائوس میں آتے ہی ٹرمپ کی افغان پالیسی پر یوٹرن لیتے ہوئے افغان طالبان سے کیے جانے والے امن مذاکرات کو ختم کردیادوسرے الفاظ میں یہ امریکا کی جانب سے ایک مرتبہ پھر طبل جنگ بجانے کے مترادف تھاامریکا کی نیت دیکھتے ہوئے افغان طالبان نے بھی امریکا کے خلاف بڑی جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ 5 فروری 2021ء واشنگٹن پوسٹ نے ڈیوڈ اکنیٹیوس کا کالم شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا (Afghanistan is Biden’s first big foreign policy headache) کالم نگار لکھتا ہے ٹرمپ انتظامیہ کے خاتمے کے تناظر میں لکھتا ہے کہ امریکا واپس آگیا ہے امریکی پالیسیاں بھی واپس آگئیں ہیں لیکن اس کے ساتھ مزید چیزیں بھی واپس آئی ہیں اب افغانستان کا مسئلہ جسے گزشتہ تین امریکی حکومتیں کسی حل تک نہ پہنچا سکیں کیا بائیڈن انتظامیہ اسے کسی قابل قبول انجام تک پہنچا سکے گی؟

جہا ں تک بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی میں جارحانہ تبدیلی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ باراک اوباما اور بل کلنٹن کی سابقہ ٹیم پر مشتمل ہے بلکہ بائیڈن خود بھی نائب صدر کی حیثیت سے اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں اب یہ تمام کا تمام مجموعہ یا گرو مل کر وائٹ ہائوس میں وارد ہوچکا ہے اس لیے افغان پالیسی کو ایک مرتبہ پھر امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جس کی دجالی پالیسیاں صرف اور صرف صہیونی دجالی مفادات کے تحت ہی تبدیل کی جاتی ہیں۔ جہاں تک امریکا کی افغان پالیسی کا تعلق ہے تو اس میں صرف افغانستان کا نام استعمال کیا جاتا ہے درحقیقت یہ امریکاکی وہ صہیونی دجالی پالیسی ہے جس کا تعلق خطے کے ہر ملک سے ہے افغانستان صرف ایک میدان جنگ ہے پاکستان، چین اور روس اس میں امریکا کے سامنے بڑے حریف ہیں جبکہ بھارت کی حیثیت اس میں امریکی اتحادی کی ہے اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مودی انتظامیہ کی ظالمانہ اور غیر انسانی پالیسیوں سے امریکا اختلاف رکھتا ہے تو اسے خام خیالی ہی کہا جاسکتا ہے۔

اسے سارے معاملے کو اس رخ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکا نے دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات کے لیے جس شخص کو منتخب کیا گیا تھا وہ زلمے خلیل زاد ہے۔اس حوالے سے ہم بہت پہلے بھی اس بات کی نشاندہی کرچکے تھے کہ زلمے خلیل زاد کا تعلق امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ سے ہے وہ ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ نہیں تھااس لیے اس نام نہاد امن مذاکرات کا کیا انجام ہوگا اس جانب ہم بہت پہلے نشاندہی کرچکے تھے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ٹرمپ حکومت افغان مسئلے کو حل کرنے کے لیے اشرف غنی حکومت پر تعاون کے لیے دبائو ڈالے اوروہ اسے مسترد کر دے۔۔۔ !! یقینا نہیں۔۔ پھر ایسی کونسی قوت تھی جو ان تمام معاملات میں اشرف غنی کی پشت پناہی کررہی تھی؟ یقینا یہ امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ تھی اور نام نہاد امریکی مصالحت کار زلمے خلیل زاد اس کا نمائندہ تھا۔
ان ہی معاملات کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے روسی صدر پوٹن سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے امریکا کی جانب سے سخت موقف اختیار کیا تھاجس کا روسی رہنما پوٹن نے ڈپلومیٹک جواب دیا اس کے بعد نئی امریکی انتظامیہ کے وزیر خارجہ انتھونی جے بلنکن نے چینی وزیر خارجہ کو فون کیا تھالیکن چین کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا وہ امریکیوں سمیت سب کے لیے حیران کن تھا سب سے پہلے تو چینی وزارت خارجہ کی انتظامیہ نے بلنکن کی بات چینی وزیر خارجہ سے ہی نہیں کروائی بلکہ ان کے اسٹاف کے ایک آفیسر نے امریکی وزیر خارجہ سے فون پر بات کی اور بلنکن کی سخت باتوں کا جواب اسی چینی افسر نے بھی اسی زبان میں دیاجس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی پالیسیوں میں ٹرمپ کی چھاپ کو ختم کرکے دنیا کو ایک مرتبہ پھر امریکی جارحانہ پالیسی کا عندیہ دینا چاہتی ہے لیکن چین کی جانب سے بلنکن کو ملنے والا جواب امریکی غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے کافی تھا۔

درحقیقت نائن الیون کے ڈرامے کے بعد جب امریکا افغانستان میں وارد ہوا تھا تو اس کا مقصد افغانستان کے صرف کچے گھروں کو مسمار کرنا نہیں تھا یہ ایک بہت بڑا صہیونی دجالی منصوبہ تھاجس میں پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم کرنا، بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانا، چین کے خلاف گھیرا تنگ کرکے بھارت کو اس میں ہراول دستے کا منصب دینا، روس کی مشرق وسطی اور منسک کی ریاستوں میں پیش قدمی کو کائونٹر کرنا شامل تھا۔ اس تمام دورانیے میں روس اور چین نے خاموش حکمت عملی اختیار کی ویسے بھی نئی صدی کی ابتدا میں روس بری طرح معاشی کساد بازاری اوربین الالقوامی قرضوںمیں پھنسا ہوا تھا دوسری جانب چین معاشی سطح پر اپنے آپ کو دنیا کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار کررہا تھایہی وہ وقت تھا جب افغان طالبان بھی امریکا کے خلاف مقابلے کے لیے اپنی صفیں درست کررہے تھے اور تھوڑی بہت مزاحمت بھی جاری رکھے ہوئے تھیاس لیے نئی صدی کے پہلے عشرے میں امریکا کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا تھا۔اس منظر نامے میں پاکستان کو سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑی، اس کے خلاف بھارت کے ساتھ مل کر افغان سرزمین پر دہشت گرد پراکسیاں تشکیل دی گئیںلیکن ہوا کچھ اس طرح کہ پاکستان کے دفاعی اداروں نے وطن عزیز کے دفاع میں ہزاروں جانیں قربان کرکے ہنود اور یہود کا یہ عالمی دجالی منصوبہ ناکام بنا دیااسی ہزار کے قریب پاکستانی شہری اور فوجی جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بھارت کی چین کے ہاتھوں درگت اور دوسری جانب برما میں فوجی بغاوت نے امریکاکو پریشان کردیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی منظرنامے میں امریکا کو ایسی کسی بات کی توقع نہیں تھی کہ برمی جنرل سول حکومت کو ہٹاکر ملک میں مارشل لاء لگا دیں گے، جبکہ مغربی میڈیا میں اس جانب بھی اشارہ کیا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ چین کے اشارے پر کیا گیا ہے جس میں کسی حد تک برما کی سوچی حکومت بھی ملوث ہوسکتی ہے جو چین کے بڑے بین الالقوامی منصوبے کا حصہ ہے۔ ایسی صورت میں کیا امریکا افغانستان سے جانے کا سوچ بھی سکتا ہے یقینا نہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان سے نکلنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ٹرمپ ایک نسل پرست یا وائٹ سپرمیسی کا علمبردار صدر بن کر ابھراتھا۔ افغان جنگ کا جو نتیجہ نکلا ہے یا آگے چل کر نکلے گا وہ سب جانتے ہیں۔ ٹرمپ امریکی فوجیوں کی واپسی سے یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ سفید فام امریکی فوجیوں کو بیرون ملک فوجی مہمات کے سلسلے میں مزید ہلاکت میں نہیں ڈال سکتا دوسری جانب اس نے جاتے جاتے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ میں پہلا صدر ہوں جو کوئی نئی جنگ شروع کئے بغیر وائٹ ہائوس سے جارہا۔ ٹرمپ کی اس پالیسی نے بھارت سمیت ایسے تمام عناصر کو پریشان کررکھا تھا جو افغانستان کو ٹھکانہ بناکر پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتے تھیدوسری جانب چین کے سامنے بھارت کے ذریعے بند باندھنا تھالیکن اس ضمن میں چین نے امریکی منصوبے کے خلاف پری ا ٹیمپٹ پالیسی اختیار کرکے بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دی اس کے علاوہ کوئی جنگی میدان گرم کیے بغیر امریکا کے صہیونی دجالی ملٹری کمپلیکس یا اسلحہ ساز صہیونی مافیا کی فیکٹریاں گرم نہیں رہ سکتیں۔ اس لیے ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہئے کہ آنے والا وقت خطے کے لیے سخت ہے بائیڈن انتظامیہ کے آتے ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے پھر سے شروع ہوچکے ہیں۔ اس لیے وطن عزیز میں جاری کرپٹ سیاسی مافیا کی سرکوبی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے بغیر اور بیمار معیشت کے ساتھ کوئی ملک ان حالات کے مقابلے کے قابل نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں