میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایم کیو ایم کی تقسیم اور ووٹر کی تذلیل

ایم کیو ایم کی تقسیم اور ووٹر کی تذلیل

منتظم
هفته, ۱۷ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

محمد اکرم خالد
2018 کے عام انتخابات میں چند ماہ باقی ہیںایسے میں ملک بھر میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں برسوں کی وفاداریاں منٹوںمیں تبدیل ہورہی ہیں ہر جماعت عوامی مسائل کا جنازہ نکلا کر ان کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے ذاتی سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر عوام کے جذبات کا تماشا بنا نے میں مصروف ہیں ستر برسوں سے اس مظلوم عوام کے بنیادی مسائل پر سیاست کی جارہی ہے ستر برسوں میں ان سیاستدانوں نے اس قوم کو صرف زبانوں فرقوں میں تقسیم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیاتعصب کی ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں نفرتوں کی ایسی فضا قائم کردی گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ملک پاکستان دشمنوں کا آسان ہدف بناہوا ہے آج پاکستان کی سلامتی خطرات کی زد میں ہے آج ہم جماعتوں فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں جس کی ذمہ دار ناکام سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں۔

گزشتہ دنوں کراچی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو ئی 23اگست 2016 کو قائم ہونے والی ایم کیو ایم پاکستان جس نے پاکستان خاص کر کراچی کی سیاست میں ہلچل مچادی مخالفین تو مخالفین ایم کیو ایم کا منظم ووٹر بھی اس تمام صورتحال پر کشمکش میں مبتلا ہے کہ آخر کیا ہونے جارہا ہے مخالفین کی جانب سے ڈھول کی تھاپ پر ایک سیاسی تماشا برپا ہے اپنوں ہی کی جانب سے اس شہر میں اکثریت سے بسنے والے اُردو بولنے والوں کی تذلیل کی جارہی ہے، آج بانی متحدہ کی تمام غیر مناسب زبان سے ہٹ کر ان کی کمی کو ان کے لوگوں میں شدید سے محسوس کیا جارہا ہے کم ازکم ان کی قیادت میں ایم کیو ایم کے چاروں دھڑے متحد تھے ان کے غلط فیصلوں کو بھی ہر صورت قبول کیا جاتا تھا مگر آج کی بنائی ہوئی جماعت موتیوں کی طرح بکھرگئی ہے جس کو سمیٹنا اب شاید ممکن نہیں رہا، یہ نقصان نہ بانی متحدہ کا ہے اور نہ ہی موجودہ دھڑوں کا ہے یہ نقصان ہر صورت اس جماعت سے منسلک عوام کا ہے جن کے اپنے نمائندے ہی آپس میں دست و گریباں ہیں ۔

پی آئی بی اور بہارد آباد ایک دوسرے پر الزامات لگا کر پارٹی کا کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں کراچی کے عوام کا نقصان کر رہے ہیں صاف نظر آرہا ہے کہ ان دونوں دھڑوں کو کر اچی کے عوام اور ان کے بنیادی مسائل کے حل کی کتنی فکر ہے ،بانی متحدہ کے بعد ایسا ہونا ہر صورت ممکن تھا آج ایم کیو ایم کے سینئر رہنما بھوکے بھڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں، ایم کیو ایم میں اقتدار کی جنگ نے اس منظم جماعت کا جنازہ نکل دیا ہے، یہ وقت اس جماعت پر ایک روز لازمی آنا تھا کیوں کہ بانی متحدہ نے اپنی حکمرانی کے دوران اس بات کا خیال نہیں کیا کیوں کہ شاید بانی متحدہ آخری سانس تک اس جماعت پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے اگر بانی متحدہ اپنے ا چھے وقت میں ہی اپنے جانشین کا اعلان کر دیتے تو شاید آج حالات قدرے مختلف ہوتے۔ آج ایم کیو ایم میں بھی وڈیروں سرداروں کی طرح کرسی کی جنگ شروع ہوگئی ہے جس کا کوئی مثبت حال نہ نکلا تو یہ دھڑے ایک بار پھر کراچی کے امن کے لیے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں

اگر22 اگست کے اقدام کے بعد کی صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو فاروق ستار ہی وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے اس جماعت کو اور اس کے چاہنے والے لاکھوں افراد کو بچایا اور بانی ایم کیوا یم سے علیحدگی کا اعلان کر کے ایم کیو ایم کو نئی زندگی دی ریاست پاکستان پر یہ بات واضح کی کہ وہ پاکستان کے خلاف نا زیبا زبان استعمال کرنے والوں کے ساتھ کبھی کھڑا ہونا پسند نہیں کریں گے ساتھ ہی بانی ایم کیو ایم سے ہر قسم کا اظہارلاتعلقی کا اعلان کر کے ایم کیو ایم سے منسلک لوگوں کو منظم اور ایم کیوایم کا طرز سیاست تبدیل کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ ایم کیو ایم میں فاروق ستار وہ واحد رہنما ء ہیں جن کے تعلقات اپنے مخالفین سے بھی خوشگوار ہیں جن کو بانی ایم کیو ایم کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا ہے، عامر خان گروپ نے اعلان بغاوت ایک ایسے وقت میں کیا جب سینیٹ اور جنرل الیکشن ہونے کو ہیں ایسے حالات میں دونوں دھڑوں کو بہت بڑے سیاسی نقصان کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے جس کا تمام تر فائدہ مصطفی کمال کی پی ایس پی اور عمران خان کی پی ٹی آئی مل کر اُ ٹھانے کی بھر پور کوشش کریں گے جس کے لیے دونوں جماعتوں کی جانب سے رابطے کی کوشش شروع کر دی گئی ہیں۔

فاروق ستار اور عامر خان کے اختلافات ایم کیو ایم کے مکمل خاتمے کا باعث بن سکتے ہیں جس کے بعد ایم کیو ایم کے تما م سینئر رہنمائوں کا سیاسی سفر اختتام پذیر ہوجائے گا ایم کیو ایم کے اختلافات اور ایم کیو ایم کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ بہادر آ باد اور پی آئی بی گروپ کراچی کے عوام اور ان کے مسائل کے حل کے لیے آپسی اختلافات کو دفن کر کے منظم انداز میںکراچی کے عوام کی رہنمائی کریں یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر دھڑوں کی تقسیم کے خلاف ہے اور وہ اپنا ووٹ دھڑوں میں تقیم نہیں کرے گا اپنے ووٹ کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو یکجا دیکھنا چاہتا ہے تاکہ بلند آواز سے ان کے مسائل پر کوئی بات کر سکے دھڑوں کی تقسیم ان کے مسائل کو مزید مشکل میں ڈال سکتی ہے لہذا اس وقت ضروری ہے کے ایم کیو ایم کے تمام دھڑے متحد ہو کر کراچی کے مسائل کو حل کی جانب گامزن کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں ۔

اس حقیقت سے کسی طورانکارممکن نہیں ہے کہ میئر کراچی گذشتہ دو سال سے کراچی سے کچرے کو صاف کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت میئر کے اختیارات کو بحال کرانے میں بھی ناکام رہی ہے اس وقت ضروری ہے کہ آپسی اختلافات کا خاتمہ کیا جائے اور کراچی اور اس میں بسنے والے عوام کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرایا جائے ،یاد رکھا جائے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کی تقسیم کراچی کے امن کو بہت بڑا نقصان پہنچاسکتی ہے اس تصادم کو روکنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تقسیم کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو ووٹ کے تقدس کا احترام کیا جانا چاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں