باپ بیٹے میں اختیارات کی جنگ ‘بلاول پارٹی امور چھوڑ کر بیرون ملک جابیٹھے
شیئر کریں
٭بلاول کا شکوہ ہے کہ صرف تقاریر کرائی جاتی ہیں، پارٹی میں اہمیت دی جاتی ہے نہ حکومتی معاملات میں ،ذرائع کا انکشاف ۔”بلاول پیدائشی مسلم لیگی ہے“شاہ مردان کی پیش گوئی وائرل٭ یہ کیسے ممکن ہے کہ پارٹی اور حکومت تو ان کی والدہ کی ملکیت ہیںلیکن اب ان دونوں پر ان کا کوئی حق نہیں ،بلاول والد کے ساتھ پھوپھی کی مداخلت سے بھی نالاں٭پارٹی چیئرمین والد کے ساتھ قومی اسمبلی میں جانے پر راضی نہیں،بلاول نے سردجنگ آگے بڑھانے کے لیے اپنی شادی کے علاوہ بہنوں کی شادی بھی موخر کردی
عقیل احمد راجپوت
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سابق صدر مملکت اور پی پی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے اعلان کیا تھاکہ وہ خود نوابشاہ سے جبکہ بلاول زرداری لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن لڑکر قومی اسمبلی آئیں گے‘ جس کی پارٹی میں بظاہر تو تعریف کی گئی لیکن درون خانہ تعجب کا اظہار کیا گیا‘ کیونکہ اگر بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری دونوں قومی اسمبلی میں آتے ہیں تو اس صورت میں دونوں میں سے زیادہ اہمیت کس کو ملے گی؟ پھر قائد حزب اختلاف کون بنے گا؟ اور سید خورشید شاہ کس حیثیت سے رہیں گے؟ باپ کو زیادہ فوقیت دی جائے گی یا بیٹے کو زیادہ اہمیت ملے گی؟ اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔پھر ایک ماہ بعد اچانک پارٹی اور پارلیمنٹیرین کے عہدیداروں کا اعلان کردیا گیاجس پر پارٹی کے کئی سینیئر رہنما ناراض بھی ہوئے کیونکہ چوہدری اعتزاز احسن‘ سید قائم علی شاہ‘ لطیف کھوسہ ‘ یوسف رضا گیلانی‘ پرویز اشرف ‘ مخدوم جمیل الزماں‘ سید خورشید شاہ سمیت اہم رہنماﺅں کو نظر انداز کردیا گیا‘ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ اس معاملے پر پارٹی کے اندر زبردست بحث و مباحثہ ہوا لیکن اس معاملے کو میڈیا سے الگ رکھا گیا ورنہ میڈیا میں یہ بحث پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی۔ پارٹی چیئرمین بلاول زرداری صحیح معنوں میں پارٹی سے ناراض ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان سے صرف تقاریر کرائی جاتی ہیں، پارٹی میں ان کو اہمیت نہیں دی جاتی اور حکومتی سطح پر تو ان کو مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے‘ بلاول کا شکوہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں 18 اکتوبر کو چارنکات کا اعلان کیا تھا اور حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان پر عمل نہ کیا تو وہ احتجاجی تحریک چلائیں گے تو پھر 27 دسمبر کو ان کو احتجاجی تحریک سے کیوں روکا گیا؟ حکومت سندھ کی تبدیلی ہوئی تو بھی ان کو بے خبر رکھا گیا اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل ان کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا، ایسی صورتحال میں وہ کیسے پارٹی امور چلائیں گے؟ بلاول بھٹو زرداری کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے انہیں لاہور سے فیصل آباد تک ریلی نکالنے کی اجازت دی گئی جو اچھی خاصی کامیاب بھی ہوئی مگر اس کے فوراً بعد بلاول کو یہ پیغام دیا گیا کہ اب وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں ‘ بلاول بھٹو زرداری اس پر ناراض ہو کر چلے گئے ہیں۔ اب اطلاعات ملی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے والد کے سامنے شرط رکھی ہے کہ قومی اسمبلی میں وہ اکیلے جانا چاہتے ہیں، اگر ان کے والد قومی اسمبلی میں گئے تو وہ خود قومی اسمبلی نہیں جائیں گے۔ بلاول نے پارٹی رہنماﺅں سے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ سینئر رہنما بھی ان کے والد آصف زرداری کے سامنے خاموش ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پارٹی اور حکومت تو ان کی والدہ کی ملکیت ہیں اور اب ان دونوں پر ان کا کوئی حق نہیں ہے‘ بلاول زرداری حکومتی اور پارٹی امور میں اپنی پھوپھی فریال تالپر کی بے جا مداخلت پر بھی تنگ ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ والد اور پھوپھی کے سامنے بے بس بنے ہوئے ہیں‘ بلاول بھٹو زرداری اس صورتحال میں احتجاجاً پارلیمانی سیاست سے الگ ہوگئے ‘ اس لئے وہ بغیر کسی اطلاع کے بیرون ممالک چلے گئے ہیں۔پارٹی کے اندرونی حلقوں نے بتایا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد اور پھوپھی سے حکومتی اور پارٹی اختیارات لینے تک کنارہ کش رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور پارٹی کے اہم رہنماﺅں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جاکر آصف زرداری اور فریال تالپر کو سمجھائیں کہ وہ ان کو پارٹی اور حکومتی امور دے دیں ورنہ وہ پارٹی سے کنارہ کش ہی ہو جائیں گے‘ اس پر اب سوشل میڈیا میں شاہ مردان شاہ پیرپگارا مرحوم کی بات پھیل گئی ہے جس میں انہوں نے بینظیر بھٹو سے کہا تھا کہ” بلاول زرداری پیدائشی مسلم لیگی ہے اور ان کی منزل بھی مسلم لیگ ہی ہے۔“ پارٹی میں اس طرح کی روایت موجود ہے‘ جب پارٹی کی شریک چیئرپرسن بینظیر بھٹو پارٹی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی عہدے سے ہٹا کر خود ہی پارٹی چیئرپرسن بن گئی تھیں اور اسی بات پر ماں بیٹی میں تنازع پیدا ہوا تھا جو آخر وقت تک ختم نہیں ہوسکا تھا۔ اب شاید ایسی صورتحال پیدا نہ ہوسکے کیونکہ بلاول کے مقابلے میں آصف زرداری زیادہ طاقتور‘ با اختیار اور مالی طور پر مضبوط ہیں جبکہ بلاول نا تجربہ کار‘ مالی طور پر غیر مستحکم اور سیاسی طور پر کمزور ہیں مگر پہلی مرتبہ کمزور ہونے کے باوجود انہوں نے آنکھیں دکھا دی ہیں اور نتیجے کی پرواکیے بغیر انہوں نے ضمنی الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زراری کو اپنے خاندان سے بھی دباﺅ تھا کہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لیں جس کے بعد انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑیں گے تاہم پارٹی کے لیے یہ بات باعث ندامت بن رہی ہے کہ اعلان کے باوجود باپ بیٹا قومی اسمبلی میں نہیں جارہے مگر یہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ اصل بات اختیارات اور مقبولیت کی ہے‘ جو باپ بیٹے میں سرد جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بلاول زرداری اس بنا پر فی الحال شادی کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں اور اپنی دونوں بہنوں کی شادی بھی نہیں کررہے‘ شاید وہ ایک جنگ کرنے کے لیے اپنا موڈ تیار کررہے ہیں۔