طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
جب 2021میں افغانستان میں امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے مکمل انخلاکے نتیجے میں افغان طالبان اقتدارمیں آئے توپاکستان میں بیشترسفارتی اورعسکری امورکے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہوجائے گی کہ طالبان کی اس فتح میں جہاں پاکستان نے بے شمارقربانیاں دیں بلکہ لاکھوں افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنے ہاں پناہ بھی دی بلکہ ساری دنیا کوعلم ہے کہ اگرپڑوس میں پاکستان جیساوفادارملک نہ ہوتاتوافغانستان میں نہ صرف سوویت یونین کوشکستِ فاش ہوتی اور وہ عالمی طاقت کی کرسی سے اوندھے منہ گرکرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتااورنہ ہی امریکااوراس کے اتحادی اس طرح رسواہوکرراہِ فرار اختیار کرتے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجوددونوں برادرمسلم ممالک کے باہمی تعلقات شدیدتناکاشکارہیں اوربدنصیبی سے یہ سارا معاملہ طالبان کے اقتدارسنبھالنے کے بعدسے شروع ہے۔
اگست2021میں جب طالبان نے اقتدارسنبھالاتواس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدلیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے 5ستمبر 2021 کوکابل کااچانک دورہ کیاتھاجس کی تصاویربھی میڈیاکی زینت بنی تھیں جوکہ اس ادارے کے سربراہ کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کاخمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہاہے۔ان دنوں وہ بھی کورٹ مارشل کی زدمیں اپنے ہی سابقہ ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ ان تصاویر اور ویڈیوزمیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے ”پریشان نہ ہوں ،سب ٹھیک ہوجائے گا” کے الفاظ اداکیے تھے لیکن ان کے اس عمل نے پاکستان کی پریشانیوں میں حددرجہ اضافہ کردیا۔لیکن پچھلے3سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔اب بظاہرپاکستان اورطالبان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان بارہاکابل سے مطالبہ کر چکاہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف کارروائی کرے جوافغان سرزمین کوپاکستان میں حملوں کیلئے استعمال کررہی ہے۔طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کررہی ہے۔گذشتہ برس دسمبر کے اواخرمیں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلیجنس پرمبنی فضائی آپریشن کیاتھاجبکہ افغان طالبان حکومت نے اسلام آبادسے شدید احتجاج ریکارڈکروایا تھا اورخبردارکیاتھاکہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کیلئے سرخ لکیرہے اوروہ اس کاجواب دے گا،جس کے بعدپاکستان کی حدودمیں واقع سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔جبکہ پاکستان کے الی دشمن انڈیانے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ”فضائی کاروائی”کی مذمت کی کیونکہ انڈیااس خطے میں اپنے آقا امریکاکی پالیسی پرمکمل طورعملدرآمدکررہاہے۔
جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدارمیں واپسی کے بعدپاکستانی حکومت حالات میں بہتری کاسوچ رہی تھی وہیں یہ بھی سمجھا جارہاتھاکہ اس پیش رفت سے انڈیاکو سفارتی اورخطے میں اثرورسوخ کے اعتبارسے دھچکاپہنچاہے۔تاہم حالیہ دنوں میں اب ایک بار پھر انڈیااورافغان طالبان میں بڑھتی قربت پاکستان کیلئے ایک سرخ لکیربنتی جارہی ہے۔افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کارخصت ہوناانڈیاکیلئے بڑادھچکاسمجھاجارہاتھا۔ایسالگتاتھاکہ انڈیانے غنی دورحکومت میں افغانستان میں جواربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی لیکن گذشتہ چندمہینوں میں انڈیاکے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اورایک بار پھرافغانستان اورانڈیاکے تعلقات میں گرمجوشی نظرآرہی ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے8جنوری کودبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دینے اورتعاون کومضبوط بنانے پراتفاق کیاہے۔طالبان کی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان انڈیاکوایک اہم علاقائی اوراقتصادی شراکت دارکے طورپردیکھتاہے۔یادرہے کہ2021میں طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدیہ ان کی انتظامیہ کی انڈیاکے ساتھ اب تک کی اعلی ترین سطح کی ملاقات تھی۔افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہاکہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے انڈیاکے ساتھ تجارت بڑھانے پربات چیت ہوئی ہے۔انڈیاایران میں چابہار بندرگاہ بنارہاہے تاکہ پاکستان کی کراچی اورگوادرپورٹ کوبائی پاس کرکے افغانستان،ایران اوروسطی ایشیاکے ساتھ تجارت کی جا سکے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعدجاری کردہ بیان میں مزیدکہاہے کہ”ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اور معیشت کومضبوط بنانے پرمرکوزہے۔ ہمارا مقصدانڈیاکے ساتھ سیاسی اوراقتصادی شراکت داری کومضبوط بناناہے۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعدانڈیاکی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کودوبارہ شروع کرنے پر غورکیاجارہاہے اورتجارت بڑھانے پربھی بات ہوئی ہے۔یادرہے کہ پاکستان سمیت دنیاکے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیا اور انڈیا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
دبئی میں طالبان اورانڈیاکے درمیان ہونے والی ملاقات پرپاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہرنہیں کیاہے تاہم خارجہ امورکے ماہرین اورتجزیہ نگاروں نے اس پیش رفت کوپاکستان کیلئے ایک اہم پیغام کے طورپردیکھاہے۔انڈیاکے انگریزی اخبار”دی ہندو”میں پاکستان کیلئے نامہ نگارنروپماسبرامنیم نے لکھاہے کہ”دریائے کابل پربننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔ انڈیا اور افغانستان کے درمیان2020میں اس ضمن میں250ملین ڈالرکے ایک منصوبے پرمعاہدہ ہواتھالیکن طالبان کے آنے کے بعد معاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔طالبان اب انڈیاسے اس منصوبے کومکمل کرنے کاکہہ رہے ہیں”۔
امریکاکی یونیورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرکرسٹوفرکلیری نے لکھاہے کہ کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی سازپاکستان کوکہتے رہے ہیں کہ طالبان کی حمایت کرنا حکمت عملی کے لحاظ سے شایدہی فائدہ مندہوگا۔اب چیزیں واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں”۔ پاکستان کی توقعات کے برعکس،کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سینٹرفارکانفلیکٹ اورسکیورٹی کے مطابق2024میں نومبرکے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں240افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریبا70سکیورٹی اہلکارشامل تھے۔
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹرکے جنوبی ایشیاانسٹیٹیوٹ کے مطابق” کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ طالبان کے ساتھ انڈیاکی بڑھتی ہوئی قربت افغانستان میں پاکستان کوشکست دینے کی کوشش ہے لیکن اس کاایک عملی پہلوبھی ہے کہ انڈیانہیں چاہتاکہ افغانستان کی سرزمین انڈیامیں دہشتگردانہ حملوں کیلئے استعمال ہو۔اس کے علاوہ انڈیاایران کے چابہارکے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانابھی چاہتا ہے۔ انڈیا بھی یہاں سے وسطی ایشیاپہنچ جائے گا۔انڈیاکی اس کوشش کی بنیادپروہاں کے لوگوں کااعتمادبھی بڑھے گا۔پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان میں اپنے مخالفین پرقابوپالیں لیکن طالبان ایساکرنے کے موڈمیں نہیں ہیں اوراس کافائدہ انڈیاکومل رہاہے لیکن انڈیااورطالبان کے تعلقات کوپاکستان کے تناظرمیں نہیں دیکھناچاہیے”۔
انڈیاکے انگریزی اخبار”دی ہندو”کے بین الاقوامی ایڈیٹرسٹینلے جانی کے مطابق”انڈیااورطالبان2021میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقراررکھناچاہتے تھے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔انڈیانے افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اوراسے دہشتگردی پربھی تحفظات ہیں۔پاکستان فیکٹربھی اہم ہے۔طالبان پاکستان کی مداخلت سے آزادرہناچاہتے ہیں اوریہ انڈیاکیلئے ایک موقع ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ انڈیاطالبان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی جلدی میں ہے۔یہ بین الاقوامی معاہدے کے بعدہی ہوگالیکن انڈیا اور طالبان رابطے برقراررکھیں گے اورآہستہ آہستہ نئے مواقع تلاش کریں گے۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنرعبدالباسط کاکہناہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور بظاہراس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اورتعلقات بڑھانے کی بات ہو رہی ہے اورساتھ ہی حملے بھی ہورہے ہیں۔عبدالباسط (ٹی ٹی پی)کوافغانستان کے ساتھ بگڑتے تعلقات کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ ہواہے اور پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کررہی ہے لیکن ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔اس طرح یہ سارا معاملہ بہت حساس ہوجاتاہے۔یقینایہ بہت حساس معاملہ ہے۔افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔پاکستان بھی چاہتاہے کہ اس کے کابل کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پرکاروائیاں بھی اس کی مجبوری بن چکی ہیں کیونکہ افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے ۔
ادھرافغانستان کے سابق سفارتکاروں نے انڈیااورافغانستان کے درمیان بڑھتے روابط پرتحفظات کااظہارکیاہے۔سری لنکا،انڈیااور امریکا میں افغانستان کے سابق سفیرایم اشرف حیدری نے وکرم مصری اورطالبان کے درمیان ملاقات پرسخت الفاظ میں لکھاہے کہ ”یہ افغانستان کے عوام کے ساتھ غداری ہے کیونکہ یہ افغان جمہوریت،آزادی اورانسانی حقوق کی صورتحال کیلئے تشویشناک ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیابھی جلدیابدیراپنی اقداراورمفادات سے غداری پرپچھتائے گا۔یہ مت بھولیں کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہندوؤں نے اس کے بھائیوں اوربہنوں کے کشمیرپرقبضہ کررکھاہے اوروہ کشمیرکی آزادی کیلئے لڑیں گے۔آپ کویہ بھی نہیں بھولناچاہیے کہ بامیان میں بدھاکے مجسموں کوطالبان نے تباہ کردیاتھا اوریہ مجسمے ہماری ثقافت کااثاثہ تھے”۔انڈیامیں افغانستان کے سابق سفیر فریدماموندزئی نے کہاہے کہ ”ان لوگوں کونظراندازکیے بغیرطالبان حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جا سکتے جووہاں مسلسل مظالم کاشکارہورہے ہیں۔کسی بھی مذاکرات میں افغان خواتین اوربچوں کے مفادات کوترجیح دینی ہوگی۔وہاں کے انسانی بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیاوہاں طالبان کے مظالم کوجائزنہ بنائے جوکل خودانڈیاکے گلے کاپھندہ بن جائے”۔
کابل میں ایک انڈین وفدکی طالبان حکام سے ملاقات کوخاصی دلچسپی سے دیکھاجارہاہے اوربعض مبصرین اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اشارہ سمجھ رہے ہیں۔دراصل گذشتہ دنوں انڈین وزارت خارجہ کے ایک اعلی اہلکار جے پی سنگھ نے ایک انڈین وفدکے ہمراہ کابل میں افغانستان کے عبوری وزیردفاع ملامحمدیعقوب اورقائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی اورافغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی سے ملاقات کی۔یہ انڈین وزارت خارجہ کے کسی اعلی اہلکارکی ملامحمد یعقوب سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ ملایعقوب طالبان تحریک کے بانی ملاعمرکے بیٹے ہیں اورموجودہ حکومت میں وہ ایک بااثررہنمامانے جاتے ہیں۔وزارت دفاع نے ایکس پرملایعقوب اورانڈین وزارت خارجہ کے نمائندے جے پی سنگھ کی ملاقات کی تصویرپوسٹ کی اورتعلقات بہترکرنے کا ذکر کیا ہے۔ انڈیا بھی اب طالبان سے تعلقات بہترکرناچاہتاہے کیونکہ وہ نہیں چاہتاکہ افغانستان میں صرف چین اورپاکستان کااثررہے۔ملایعقوب اس سے پہلے بھی انڈیاسے مضبوط رشتے قائم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں اوردفاع کے شعبے میں بھی اشتراک کی امیدکررہے ہیں۔
طالبان سے پہلے کی حکومتوں کے دوران انڈیاافغانستان کی فوج کوٹریننگ فراہم کیاکرتاتھاجبکہ افغانستان کے فوجی اہلکارانڈیاکی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کیلئے بڑی تعدادمیں انڈیاآتے تھے۔پروفیسربلقیس کہتی ہیں کہ افغانستان سے انڈیاکے تعلقات تاریخی طور پر اچھے رہے ہیں۔طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدانڈیانے افغانستان کے شہریوں کیلئے ویزامحدودکردیاہے۔ 4اور 5نومبرکوہونے والی اس بات چیت میں طلبا،تاجروں اورعلاج ومعالجہ کیلئے آنے والے افغان شہریوں کیلئے ویزاجاری کرنے کے سوال پر بھی مفصل بات ہوئی ہے۔اب انڈیابھی تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی دکھارہاہے۔انڈیاکے تعلقات چاروں طرف اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہیں۔ یہ انڈیاکے مفادمیں ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات بہترکرے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہے گاکہ طالبان بھی اس کے خلاف ہوجائیں۔وہ نہیں چاہے گاکہ چین اورپاکستان افغانستان کوانڈیاکے خلاف استعمال کریں۔
انڈین اہلکارسے ملاقات کے بعدطالبان حکومت کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہاکہ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی رشتوں کووسعت دینے اوردونوں ملکوں کے درمیان روابط بڑھانے پرزوردیاہے۔بعض افغان اہلکاروں کے حوالے سے انڈین میڈیا نے خبردی ہے کہ یہ ملاقات اس بات کااشارہ ہے کہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجودانڈیااب انسانی بنیادوں پردی جانے والی امداد سے آگے کی راہ دیکھ رہاہے۔آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں مزید پیشرفت کاامکان ظاہرکیاگیا ہے ۔
انڈیاکی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کومیڈیابریفنگ میں بتایاکہ افغان رہنماؤں سے بات چیت میں دیگرباتوں کے علاوہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے راستے افغانستان کوتجارت کی پیشکش کی ہے۔ان کے بقول انڈین اہلکاروں نے طالبان کوبتایاکہ کس طرح ایران کے تاجراوربزنس مین ایران کی چابہاربندرگاہ سے اپنے مال کی برآمداوردرآمداور دیگرکاموں کیلئے فائدہ اٹھا
سکتے ہیں۔ایران میں چابہاربندرگاہ انڈیاتعمیرکررہاہے جسے پاکستان کے ساحلی شہرگوادرمیں چین کے ذریعے تعمیرکی جانے والی بندرگاہ کے متبادل کے طورپربھی دیکھاجاتاہے۔کابل میں اس ملاقات سے چندہفتے قبل طالبان کے بعض اہلکاردلی کادورہ کرچکے ہیں۔کچھ عرصے سے انڈیاافغانستان کی طالبان حکومت سے اپنے تعلقات رفتہ رفتہ استوارکرنے کی طرف قدم بڑھارہاہے۔
افغانستان میں2021میں طالبان کے آنے بعدانڈیانے طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیاہے۔دلی میں افغانستان کے سفارتخانے میں گذشتہ حکومت کے جوسفارتکارتھے وہ یہاں سے جاچکے ہیں۔کسی بھی ملک نے اگرچہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیا تاہم علاقائی ممالک بشمول چین،روس،پاکستان،ایران اورقطرکاسفارتخانے اب بھی کابل میں موجودہیں۔حال ہی میں انڈیانے کابل میں سفارتی مشن بحال کیا۔طالبان ایک عرصے سے انڈیاپرزوردے رہے ہیں کہ وہ طالبان کی وزاراتِ خارجہ کے سفارت کاروں کویہاں مامورکرنے کی اجازت دے۔اس ملاقات میں بھی طالبان نے سفارتکاروں کی تقرری سے متعلق سوال اٹھایاتھا۔اب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ انڈیاطالبان کے سفارتکاروں کودلی میں مامورکرنے کی اجازت دینے پرغورکررہاہے۔طالبان انڈیاکو کئی باریہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کوانڈیامخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہونے دیاجائے گا۔گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات میں اتارچڑھاؤآتارہاہے۔پاکستانی دفترخارجہ نے بارہااپنے بیانات میں افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان پرحملوں کیلئے استعمال نہ کی جائے جبکہ طالبان حکام یہ دعوی کرتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہورہی۔
رواں سال انڈیااورمالدیپ کے درمیان سردمہری رہی تھی تاہم اکتوبرمیں انڈیانے مالدیپ کی معاشی بحالی کیلئے ہزاروں ڈالرقرض دینے پررضامندی ظاہرکی۔مئی میں نیپال کے نئے نقشے کے ساتھ جاری کیے جانے والے100روپے کے نیپالی نوٹ کے اجراپر انڈین حکام نے ناراضی ظاہرکی تھی جبکہ ماضی قریب میں بھوٹان کی طرف سے چین سے بہتر سفارتی تعلقات استوارکرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سری لنکامیں ستمبرکوبائیں بازوکی جانب جھکاؤرکھنے والے سیاست دان انوراکماراڈسانائیکے نئے صدربنے ہیں جنہیں چین کا حامی سمجھاجاتاہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت جانے کے بعدسے انڈیامیں موجودہیں جہاں انہیں سیاسی پناہ دینے کا معاملہ زیرِبحث ہے۔
ادھرانڈین خارجہ امورکے ماہرین کے مطابق انڈیااورطالبان کی حکومت،دونوں کے درمیان باہمی اعتمادکی کمی ہے۔انڈیانے طالبان کو تسلیم نہیں کیالیکن اگروہ دلی میں افعان سفارتخانے میں طالبان کے سفارتکاروں کومامور کرنے کی اجازت دیتاہے تویہ تعلقات کی باضابطہ بحالی کی جانب ایک بڑاقدم ہوگالیکن انڈیاابھی تک طالبان کوتسلیم کرنے سے پہلے”ویٹ اینڈواچ”کی پالیسی پرعمل پیرا رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی دفترخارجہ کی ترجمان نے اگست کے دوران کہاتھاکہ اگرعبوری افغان حکومت اپنے شہریوں اوربین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کویقینی بنائے گی کہ اس کی سرزمین اس کے پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جا رہی تب ہی اسے تسلیم کرنے میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق انڈیاکی حکومت اس وقت مکمل طورپراپنے نئے مربی ٹرمپ کی گودمیں بیٹھ کران کی پالیسیوں پرعملدرآمد کررہاہے اورٹرائیکاکی مکمل کوشش ہے کہ”سی پیک”کو کسی بھی صورت میں مکمل نہ ہونے دیاجائے،اس حکمت عملی کے لحاظ سے افغانستان کی اہمیت موجودہ علاقائی پس منظرمیں بہت زیادہ ہے اوراس سے تعلقات پوری طرح بحال کرنے کیلئے انڈین حکومت اب اسی طرف قدم بڑھارہی ہے لیکن یہ یادرکھنابہت ضروری ہے کہ جوطالبان اس وقت انڈیاکواپنی سرزمین انڈیامخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کرنے کی یقین دہانیاں کروارہے ہیں،اس سے قبل وہ ایسی ہی تحریری یقین دہانیاں دوحہ میں اقوام عالم کوکروا چکے ہیں اورجس پاکستان کی قربانیوں کی بدولت وہ اس مقام پرپہنچے ہیں،اگراس کے ساتھ یہ سلوک روارکھاجا رہا ہے توکل انڈیاکوبھی یقیناایسے سلوک کامنتظررہناہوگاجوشائداس سے کہیں زیادہ شدید اورناقابل یقین ہوگااورطالبان کی موجودہ قیادت کوبھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ رب کریم نے واضح طور پر ارشاد فرمایاہے کہ ”نیکی کا بدلہ نیکی کے سوااورکیاہے”۔