کراچی میئرشپ،جماعت اسلامی کی پوزیشن مستحکم
شیئر کریں
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے ایوان کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بعد پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن گئی لیکن اب بھی اسے سادہ اکثریت نہیں مل پائی۔ جماعت اسلامی مزیدتین نشستوں پرکامیابی کے بعد 89نشستیں حاصل کرچکی ہے ،دونوں جماعتیں تنہااپنامیئرمنتخب کرانے کی پوزیشن میں نظرنہیں آتیں ،پیپلزپارٹی تحریک انصاف اتحادکے امکان کویکسرمستردکرچکی ہے لیکن جماعت اسلامی کے پاس پی ٹی آئی سمیت دیگرجماعتوں سے اتحادکاآپشن موجودہے ایسی صورت میں جماعت اسلامی پی ٹی آئی سمیت دیگرجماعتوں سے اتحادقائم کرکے کراچی میں اپنامیئرلانے کی مضبوط پوزیشن میں ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے خالی ہاتھ رہنے کاامکان ہے ،واضح رہے کراچی میں نئے بلدیاتی ڈھانچے کے مطابق کے ایم سی کا ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہوگا، جس میں 246 ارکان براہ راست منتخب کئے گئے یوسی چیئرمین ہوں گے جب کہ 121 ارکان مخصوص نشستوں پر پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوں گے۔کے ایم سی ایوان میں خواتین کی 81، مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کی 12،12 اور ٹرانسجینڈر اور خصوصی ضروریات کے حامل ارکان کے لیے 2،2 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے ممکنہ مخصوص نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔پیپلز پارٹی کو 91 یوسیز پر کامیابی کے بعد خواتین کی 32 مخصوص، جب کہ نوجوانوں، اقلیت اور مزدوروں کی 12، 12 میں سے 5،5 نشستیں ملیں گی۔ اس کے علاوہ خواجہ سرا اور معذور افراد کی بھی 2، 2 میں سے ایک ایک نشست بھی پیپلز پارٹی کو ملے گی۔پیپلز پارٹی کی موجودہ 235 الیکشن کے ایوان میں 142 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہوگی۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی 89 یوسیز پر کامیابی کے بعد دوسرے نمبر پر آئی ہے، اس لئے خواتین کے لیے مخصوص 81 نشستوں میں سے جماعت اسلامی کو 32 مل سکتی ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرح جماعت اسلامی کو بھی نوجوانوں، اقلیت اور لیبر کی پانچ پانچ نشستیں ملیں گی۔اس کے علاوہ خواجہ سر ا اور معذور افراد کی بھی ایک ایک نشست جماعت اسلامی کے حصے میں آئے گی۔ جماعت اسلامی 137 ارکان کے ساتھ کے ایم سی میں دوسرے بڑی جماعت ہوگی۔پی ٹی آئی کو 40 نشستوں پر خواتین کی 14 مخصوص نشستیں، جب کہ بھی نوجوانوں، اقلیت اور لیبر کی 2،2 نشستیں ملی گی۔ تحریک انصاف مخصوص نشستوں کے ایوان 60 کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہوگی۔بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے 7، جے یو آئی(ف)نے 3، ٹی ایل پی نے 2، مہاجر قومی موومنٹ نے ایک جب کہ 3 یوسیز میں آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔مسلم لیگ (ن)کو 2 جب کہ جے یو آئی اور ٹی ایل پی کو خواتین کی ایک ایک نشست مل سکتی ہے۔تاہم آزاد یو سی چیئرمینز کی کسی بھی جماعت میں شمولیت سے بھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی مخصوص نشستیں بڑھ یا گھٹ سکتی ہیں۔خیال رہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد کی صورت میئر لا سکتی ہے۔ کے ایم سی قائد ایوان کے لئے 184 نمبرز درکار ہیں جبکہ دونوں جماعتوں کی اراکین کی تعداد ملکر 193 بنتی ہے۔دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی کے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے خلاف خلاف شدید مزاحمت کی جائے گی، جماعت اسلامی شہر کی نمبر ون پارٹی بن کر سامنے آئی ہے اور ہم سادہ اکثریت کی جانب جا چکے ہیں لیکن ہماری واضح اکثریت کو کم کرنے کے لیے آر اوز کے دفاتر میں نتائج تبدیل کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ 95 یوسی میں ہمارے امیدواروں کے فارم 11 اور 12 ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ان میں سے 9یوسیز کے نتائج میں آر او آفس میں سازش کے ذریعے غلط اعلان کر کے ہمیں ہارا ہوا ظاہر کیا گیا ہے، ان یوسیز میں اورنگی ٹائون کے یوسی نمبر 8,7,6,3 منگوپیر معمار یوسی 12، گلشن اقبال یوسی 1، مومن آباد یوسی 3اورماڈل کالونی یوسی 8،یوسی 1 صفوراٹائون شامل ہیں، اس کے علاوہ 10یوسیز میں ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت سعید غنی نے کہاہے کہ میئر کے امیدوار کا نام فائنل نہیں ہوا، اس پر ابھی مشاورت ہو گی، پیپلز پارٹی کو جماعتِ اسلامی کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر اعتراض نہیں ہے،حیدر آباد کے مسائل بھی تقریبا کراچی جیسے ہی ہیں، وہاں بھی اصولی طور پر میئر پیپلز پارٹی کا ہونا چاہیے۔