میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پندرہ ہزار یومیہ بمقابلہ منفی پانچ ہزار

پندرہ ہزار یومیہ بمقابلہ منفی پانچ ہزار

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۶ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم شہباز شریف کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا احمد جواد مستعفی ہوگئے تھے اس موقع پر ایک بیان میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ روزآنہ تقریب سترہ ہزار نوجوان اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں جس میں نوے فیصد پی ٹی آئی کے حامی ہیں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ روزآنہ چار سے پانچ ہزار افراد قدرتی موت سے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اوران میں اکثریت بزرگ افراد کی ہے جن کی بھاری اکثریت پی ڈی ایم کے ساتھ ہے اس کے علاوہ مہنگائی، بے روزگاری اور پی ڈی ایم کی ناقص حکمرانی کی وجہ سے بھی پی ڈی ایم کے ووٹرز اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں ایک محطاط اندازے کے مطابق پی ٹی آئی کے ووٹرز پندرہ ہزار یومیہ کے حساب سے بڑھ رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے ووٹرز پانچ ہزار کی تعداد میں کم ہورہے ہیں یعنی پی ٹی آئی سے پی ڈی ایم کا مقابلہ پندرہ ہزار ووٹر یومیہ بمقابلہ منفی پانچ ہزار یومیہ ہے اس طرح پی ڈی ایم کو روزآنہ کی بنیاد پر بیس ہزارووٹرز روزآنہ کا نقصان ہو رہا ہے یہ ایک انتہائی خوفناک صورت حال جس کاازالہ کرنے کی تمام کوششوں کے اب تک منفی نتائج سامنے آرہے ہیں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ حکومت کا سار زور انتظامی یا طاقت کے حربوں سے پی ٹی آئی کو ختم کرنے پر ہے یہ بذات خود اعتراف ہے وہ سیاسی طور پر ہار تسلیم کررہے ہیں پی ٹی آئی بار با ر اس بات کا الزام لگاتی ہے کہ پی ڈی ایم مذاکرات کے دوران برملا اس بات کا اظہار کرتی رہی ہے کہ وہ ملک میںعام انتخابات کے لیے اس لیے تیار نہیں ہیں کہ انہیں اس میں بڑی ناکامی کا خدشہ ہے یہ بات بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان کی اکثریت نے عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی تبدیلی کو رد کر دیا ہے اور اگرجولائی تک بھی یہی حالات رہے تو ملک میں طویل مدت تک انتخابات نہیں ہونگے اور موجودہ پارلیمنٹ میں مزید پانچ سال کی توسیع کے حیلے بہانے تیار کیے جائیں گے بہت ممکن ہے کہ پی ڈی ایم اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اور پی ٹی آئی کے ارکین کو شامل کرکے دوتہائی اکثریت کے ذریعے اس میں کامیابی حاصل کرلے لیکن جمہوریت عوام کی مرضی کے مطابق حکومت کا نام ہے جس کی مسلسل نفی ہورہی ہے حکومت کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ پی ٹی آئی کا فلسفہ کامیاب ہورہا ہے اصل مسئلہ لوگوں کی پی ڈی ایم کی جماعتوں کو خیر باد کہنے کاہے۔
آج کے حالات میں یا آئندہ انتخابات میںپی ٹی آئی پر پابندی لگا کر بھی انتخابات کرائے جائیں گے تو بھی لوگ پی ڈی ایم کے مخالف کی جانب راغب ہونگے پی ڈی ایم کا طرز حکومت ملک کو آتش فشاں کے دہانے کی طرف لے جا رہا ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے جس کی آگ پورے خطے میں دور دور تک پھیل سکتی ہے امراء اور مراعات یافتہ طبقہ تو فوراً دیگر ممالک کا رخ کرے گا لیکن غریب لوگ اس تباہی کا یندھن بنیں گے جیسا کہ افغانستان میں ہواتھا پاکستان اور اس پورے خطے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ایک صاف ستھری جمہوریت کے ساتھ آگے بڑھے اور پورے خطے کے لیے ایک مثالی جمہوریت کے طور پر سامنے آئے پاکستان میں جاری عدم استحکام کسی کے لیے بھی بہتر نہ ہوگا محض اداروں کے بل پر حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہے گی ادارے اور حکمران جماعتوں کو اس سے نقصان ہوگا حکمران جماعتیں پٹرول کی قیمت ایک سو پچاس اور بجلی کے نرخ میں پچاس فیصد کمی کرکے اس صورت حال سے نکلنے کا آغاز کر سکتی ہے اس کے علاوہ ملک میں صنعت ،تجارت ،خصوصاً برآمدی صنعتوں ،آئی ٹی اور زراعت کو فروغ دینے کے عملی اقدامات کرنے چاہیے اس کے علاوہ تما کارروائیاں خود حکمران جماعتوں کے خلاف جائیں گی اور ایسے گروہ منظرعام پر آجائیں گے کہ وہ تمام ریاستی مشینری بے بس کردیں گے جس کا فائدہ پاکستان دشمنوں کو ہوگا پاکستان کی سا لمیت اور بقا کا تقاضا ہے کہ اندرونی خلفشار نہ ہوانسانی حقوق بحال رہیں جمہوریت مستحکم ہو عدلیہ اور پولیس آزاد اور بد عنوانی سے پاک ہو غریب بزرگوں،بیوائوں اور معذوروں کو معاشرے میں مکمل تحفظ حاصل ہو اس سلسلے میں فوری اقدامت کا آغاز ضروری ہے ورنہ وقت گذرنے کے ساتھ حالات خراب ہونگے۔
افغانستان میں ہونے والے واقعات اور عوامل کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنا خصوصاً انتہاپسندی اور دہشت گردی کی کسی بھی لہر کو روکنا پاکستان کے دفاعی اداروں کے لیے انتہائی اہم ہے جس میںآہستہ آہستہ اضافہ ہورہا ہے پاکستان کی سیاسی قیادت ذاتی مفادات کے حصار میں قید ہے ملک میں وزراء کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یہ تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ سو سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے وزراء کی اس فوج کو دیکھ کر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منفی تاثر پید ہورہا ہے خاص طور سے اس وقت جب مالیاتی اداروں سے قرضوں کو حصول میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے موجودہ خرابی کے تین اہم پہلوہیںاندرونی عدم استحکام،معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی ان تینوں پرقابو پا کر ہی ملک آگے جا سکتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی تمام تر توجہ پنجاب پر نقب لگانے میں ہے اس کے لیے پرویز الٰہی کی جماعت کو وزارت عظمٰی کا عہدہ دینا ہوگا جس کی سکت پی ڈی ایم کی جماعتوں میں نہیں ہے دوسرا فارمولہ ایک طویل مدّت عبوری حکومت ہے اس کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے لیے اس قسم کے کسی فامولے پر عملدرآمد انتہائی مشکل ہوگااور ملک کی تمام جماعتیں اس عبوری حکومت میں بھی اپنا حصہ حاصل کرنا چاہیں گی جو ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے اس وقت پی ٹی آئی سیاسی سطح پر حاوی ہے اس موقع پر سابقہ عسکری قیادت کی جانب سے عمران خان سے ٹکڑائو خود اپنے لیے مزید خرابی کے مترادف ہے تمام معاملات سے دور ہونے سے ہی انہیں فائدہ ہو سکتا ہے پاکستان کو ہر صورت میں معاشی ابتری ،عدم استحکام اور لاقانونیت کی طرز حکمرانی سے نکلنا ہوگاانتخابات کے نتائج میں کسی جماعت کی بھاری اکثریت کے خوف سے پورا نظا م تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے تمام پس پردہ کارروائیاں بے نقاب ہونگی عدم استحکام بڑھتا چلا جائے گا عمران خان کی نااہلی اور گرفتاری سے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ووٹ مزید کم ہونگے حالات کا گہرائی کا جائزہ لیا جا ئے تو عمران خان پیچھے رہ گئے ہیں ان کے حامی اور کارکن ان سے آگے نکل چکے ہیں وہ موجودہ نطام کے خلاف کسی بڑی جدوجہد کے خواہاں تشدد سے انہیں روکنا ایک طویل خانہ جنگی ا ور انتشار کا پیش خیمہ ہوگا عوام مہنگائی اور بد عنوانی سے شدید تنگ ہیں اس اندرونی آتش فشاں کو پھٹنے سے روکنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں