میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عرب اسلامک امریکن سربراہ کانفرنس

عرب اسلامک امریکن سربراہ کانفرنس

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ”ریاض“ میں ”عرب اسلامک امریکن سربراہ کانفرنس “منعقد ہوئی ، جس میں پاکستان اور امریکا سمیت پوری دُنیا سے تقریباً 55 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ کانفرنس کا اہم اور بنیادی مقصد خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فساد وبد امنی کا کلی استیصال تھا۔ اس کانفرنس کے روح رواں اور تمام نگاہوں کا مرکز امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ : ”سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مسلم ممالک کو آپس میں متحد کیا (جوکہ ایک اچھا اقدام ہے) ، بلاشبہ اسلام دہشت گردی کی حمایت نہیں بلکہ اُس کی مخالفت کرتا ہے ،اور دہشت گرد خدا کو نہیں بلکہ دہشت گردی کو مانتے ہیں ، دہشت گردی سے 90 فی صد مسلمان متاثر ہوئے ہیں، اس لیے اب دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے پوری دُنیا کو باہم متحد ہونا ہوگا ، اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔اس وقت دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز ایران ہے ، جس نے لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کی بلکہ اُس نے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کو مختلف قسم کے اسلحہ جات بھی مہیا کیے، خمینی انقلاب سے پہلے تک دُنیا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نا آشنا تھی ، لیکن جونہی خمینی انقلاب آیا اُس نے پوری دُنیا کو دہشت گردی جیسی جھلسادینے والی آگ میں جھونک دیا ، لہٰذا تمام اسلامی ممالک سے اپیل ہے کہ جب تک ایرانی حکومت دُنیا میں امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے ہمارا ساتھ نہ دے اسے عالمی طور پر تنہا رکھا جائے۔“
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، جن کا صدارتی خمیر ہی اسلام اورمسلمان دُشمنی پر اٹھایا گیا ہے اُن کے منہ سے اسلام اور مسلمانوں کی حمایت میں نکلنے والے جملے یقیناً حیرت انگیز ہیں ، ہم اُن کی اس بات سے سو فی صد اتفاق کرتے ہیں کہ واقعی گزشتہ چند سالوں سے 90 فی صد مسلمان دہشت گردی سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں ، لیکن اس حقیقت سے بھی کسی طرح انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کی بیخ کنی میں بھی اتنے ہی فی صد مسلمان اس کا نشانہ بنے ہیں ، لیکن اس بات کا ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ وطن عزیز ملک پاکستان نے کس طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ؟
دُنیا بھر کے مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران کانفرنس میں شریک تمام ممالک کے سربراہان کی توجہ کا مرکز اور محور صرف ایران کو بنائے رکھا ، حالاں کہ انہیں ایران سمیت داعش ، القاعدہ اور کرد دہشت گردوں کی تخریب کارانہ اور امن دُشمن کار روائیوں کی طرف بھی دلانا چاہیے تھی اور اُن کے خلاف بھر پور کار روائی کی مہم کا آغاز کرنے کا بھی مشورہ دینا چاہیے تھا ، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا ، حالاں کہ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو جس طرح ایران نے خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دے کر عالمی امن کو داو¿ پر لگایا ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ داعش ، القاعدہ اور کرد تنظیموں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیاہے۔
اس تناظر میں یہ حقیقت خوب اچھی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان مذکورہ بالا تینوں دہشت گرد تنظیموں کو عیار امریکا کی پشت پناہی ضرور حاصل ہے اور وہ اسی کے اشارے کنایوں پر عمل کرتے ہوئے دُنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آگ میں جھونک رہی ہیں ۔بلکہ کرد دہشت گردوں کے بارے میں تو یہاں تک مشہور ہے کہ انہوں نے C.I.A اور امریکا کی سرپرستی میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے ، اُسے فروغ دینے اور اُس کا الاو¿ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ اور کوئی موقع فروگزاشت نہیں کیا ، چنانچہ آج ترکی سمیت شام اور عراق دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جن دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہیں،وہ اسی کرد تنظیم کی مذموم اور مکروہ محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہیں۔اس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب نے اپنی سرپرستی میں خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ، انتہا پسندی اور انتشار کو جڑ سے نکال پھینکنے کے لیے جو مختلف اسلامی ممالک کا عسکری اتحاد تشکیل دیا ہے ¾ ڈونلڈ ٹرمپ اس اتحاد کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں اور دُنیا کے دو اہم اور بڑے ممالک ( سعودی عرب اور ایران) کو باہم لڑواکر ان دونوں کوجنگ کے شعلوں کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں، تاکہ عالم اسلام میں اختلاف و انتشار کو پھیلا کر اسلام اور مسلمانوں کی خوب اچھی طرح بیخ کنی کی جائے اور ان کے اس باہمی عسکری اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کیا جاسکے ۔
اس اہم اور حساس موقع پر ہم حکومت سعودیہ اور حکومت ایران کو اس بات کا احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ عیار امریکا کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی یا گرم بازاری کر نے کے بجائے حقیقت حال اور دُشمن کی چال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس اہم اور نازک موقع پر ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ دُشمن عالم اسلام کی پیٹھ میں اپنا خنجر گھونپنے میں کامیاب ہوجائے اور ہم آپس ہی میں خانہ جنگی کا شکار ہوجائیں اور اسلام اور مسلمان کی رہی سہی موجودہ کسر سے بھی اپنے ہاتھ دھوبیٹھیں۔
قبل ازیں مختلف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کے سربراہ وطن عزیز ملک پاکستان کے سابق چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب روانگی سے قبل قوم کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی ایسی فوج کی سربراہی قبول نہیں کریں گے کہ جس کا نشانہ ایران ہو ، لیکن آثار و قرائن سے تاحال اس یقین دہانی کے دُور دُور تک کوئی آثار نظر آتے دکھائی نہیں دے رہے ، بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی فرماں روا شاہ سلمان کی کانفرنس میں کی گئی تقاریر سے تو اب اس کے آثار نظر آنا اور زیادہ مشکل بلکہ ناممکن سے ہوکر رہ گئے ہیں ۔
سعودی عرب نے عیار امریکا کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے کر کے موجودہ لمحہ کے لیے تو امن حاصل کرلیا ہوگا لیکن آنے والے وقت میں اس کے خوف ناک سائے سعودی عرب کے سر پر منڈلاتے ابھی سے نظر آرہے ہیں ، لہٰذا اس حقیقت کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب اور ایران حکومت دونوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور باہمی خانہ جنگی کے بجائے عالمی دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا۔
اس موقع پر ہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی اس بات کی پر زور اپیل کرتے ہیں کہ چوں کہ ان کے سعودی عرب کے ساتھ کافی عرصہ سے بہترین اور مثبت تعلقات چل رہے ہیں اس لیے ان کو چاہیے کہ وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک ایسی جامع ، مو¿ثر اور مربوط حکمت عملی کا مظاہرہ کریں کہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہونے کے بجائے باہمی اتحاد و اتفاق کے عنصر کو بڑھانے کی کوشش کریں ، تاکہ اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کی طاقت کسی مسلم ملک کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسی لعنت کے خلاف استعمال ہو تاکہ اس سے عالم انسانیت میں عموماًاور عالم اسلام میں خصوصاً امن وسلامتی اور اتحاد و اتفاق کی ہوائیں چل پڑیں۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں