نوازشریف ،مریم چھوٹنے نہیں چاہئیں،ثاقب نثارکاجج کوحکم ، سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈاپھوڑدیا
شیئر کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق گلگت بلتستان کورٹ کے سابق جج کے انکشافات کے بعد معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اور دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف انصار عباسی کو ذاتی حیثیت میں کل صبح ساڑھے 10 بجے طلب کیا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ہائیکورٹ کے جج کا نام آنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کچھ دیر میں نوٹس پر سماعت کریں گے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق انکشافات کیے۔اس حوالے سے قومی اخبار روزنامہ جنگ میں شائع کالم میں انصار عباسی نے کہا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اْس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔دستاویز کے مطابق، شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021ء کو دیا ہے۔ نوٹرائزڈ حلف نامے پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے دستخط اور ان کے شناختی کارڈ کی نقل منسلک ہے۔ روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق نوٹری پبلک کی مہم کے ساتھ لکھا گیا کہ شمیم نے حلفیہ میرے روبرو 10 نومبر 2021ء کو اس دستاویز پر دستخط کیے۔ رابطہ کرنے پر گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے پہلے تو حلف نامے کے مندرجات کی تصدیق کی۔اس نمائندے نے حلف نامے کے مندرجات اْنہیں واٹس ایپ کال کے ذریعے پڑھ کر سنائے، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ صحیح سے سْن نہیں پا رہے۔ اْنہیں ایک مرتبہ پھر فون کال کی گئی لیکن پھر اْن کا واٹس ایپ بند ہوگیا۔ اْنہوں نے باقاعدہ کی گئی فون کالز بھی وصول نہیں کیں اور پھر اْن کا فون بھی بند ہوگیا۔ چند گھنٹے بعد، گلگت بلتستان کے سابق جج نے اِس نمائندے کو ایک اور فون نمبر سے پیغام بھیجا جس میں انہوں نے اپنے بیان کے مندرجات کی تصدیق کی۔اس حوالے سے جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ انہوں نے کبھی اپنے ماتحت ججوں کو کسی بھی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں دیے چاہے وہ آرڈر نواز شریف، شہباز، مریم کے خلاف ہو یا کسی اور کے خلاف ہو۔ ہائیکورٹ کے جج کا نام ایڈیٹ کرنے کے سوا، شمیم کا حلفیہ بیان یوں ہے۔میں جسٹس ڈاکٹر رانا محمد شمیم، سابق چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ آف گلگت بلتستان(31 اگست 2015ء تا 30 اگست 2018ء ) حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ: ۱) جولائی 2018ء میں جب میں چیف جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا، اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار تعطیلات کے سلسلے میں اپنی فیملی کے 27 افراد کے ہمراہ گلگت ائے اور انہوں نے عدالت کے مہمان خانے میں قیام کیا۔(۲) جس شام کا یہ واقعہ ہے اس دن میں، میری مرحوم اہلیہ، جسٹس ثاقب نثار اور ان کی اہلیہ باغ میں چائے پی رہے تھے، میں نے دیکھا کہ چیف جسٹس پاکستان پریشان تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے اور انہیں ہدایات دے رہے تھے کہ جسٹس۔۔۔۔۔۔ کی رہائش گاہ پر جاؤ اور ان سے درخواست کرو کہ مجھے (ثاقب نثار کو) فوراً فون کرے۔( ۳) اگر فون کال نہ لگ پائے تو اْن تک میری (ثاقب نثار کی) طرف سے یہ پیغام پہنچانا کہ میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر عام انتخابات سے قبل ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہئیے۔(۴) اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اْن کی جسٹس۔ سے فون پر بات چیت ہوگئی اور انہوں نے اْسے بتایا کہ میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنے چاہئیں۔ جس کے بعد دوسری طرف سے یقین دہانی ملنے پر وہ پرسکون ہوگئے اور خوشی سے چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔ ۵) میں نے بحیثیت ایک ساتھی اور میزبان کے، اْن سے کہا کہ وہ گلگت بلتستان میں اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منائیں۔