میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان بھوک کے شکار ملکوں میں سرفہرست

پاکستان بھوک کے شکار ملکوں میں سرفہرست

منتظم
اتوار, ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

40 فیصد بچے بھوک یا کم غذائیت کے شکار ہیں،مہنگائی بھارت کے مقابلے میں30 فیصد زیادہ،حکمرانوں کے معیشت سے متعلق بلند بانگ دعوے
1992کے مقابلے میں 2000 تک صورتحال بہتر تھی اس کے بعد دوبارہ صورتحال دوبارہ بتدریج خراب ہونا شروع ہوئی،دنیا کے 118 ملکوں میں پاکستان کانمبر 107 ہے
ایچ اے نقوی
دنیا بھر میں بھوک اور فاقہ کشی کے حوالے سے جاری کیے جانے والے نئے انڈیکس میں انکشاف کیا گیاہے کہ پاکستان بھوک اور فاقہ کشی کے شکار ملکوں میں سرفہرست آتاجارہاہے،عوام اور خاص طورپر بچوں کو حاصل غذائیت کی صورتحال کے حوالے سے 4 پیمانوں سے جانچ کر جاری کی جانے والی فہرست میں رواں سال دنیا کے 118 ملکوں میں پاکستان کانمبر 107 نظر آتاہے۔
بھوک اور غربت کے حوالے سے عالمی رپورٹ میں ظاہر کیے جانے والے اعدادوشمار سے پاکستان میں عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم اپنی مستقبل کی نسل کو کہاں کھڑا کررہے ہیں۔پاکستان بنیادی طورپر ایک زرعی ملک کے نام سے دنیا میں اپنی پہچان رکھتاہے اور اس کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتاہے جنھیں سوائے ہنگامی صورتحال کے غذائی اجناس درآمد کرنے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔
ایک ایسا ملک جس کی مٹی اس کی ضرورت سے زیادہ اناج اگلتی ہو اور جس کی معیشت کا 50 فیصد سے زیادہ زراعت پر مبنی ہواورجس کاوزیر خزانہ کسی غیر ملکی جریدے میں اسپانسر کیے گئے مضامین میں دیے گئے اعدادوشمار کی بنیاد پر بہترین وزیر خزانہ کا اعزاز اپنے سینے پر سجاکر خوشی سے پھول رہاہو اور مختلف ممالک سے اپنے اس کارنامے پر داد وصول کررہاہو، اس ملک کے عوام کا بھوک اور کم غذائیت کاشکار ہونا اس ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیںہے۔یہ صحیح ہے کہ دنیا میں اب بھی متعدد ایسے ممالک موجود ہیں جہاں بھوک اور کم غذائیت کی صورتحال پاکستان سے بھی زیادہ سنگین ہے لیکن اس فہرست میں پاکستان سے زیادہ بدحالی کے شکار ملکوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ان میں زیادہ تر وہ ممالک نظر آتے ہیں جو یا تو جنگوں، خانہ جنگیوں اور داخلی اور خارجہ سطح پر مسلح تصادم کاشکار ہیں یا پھر وہ جو طویل عرصے سے خشک سالی سے متاثر ہیں اور انھیں اپنے عوام کی غذائی ضرورت اجناس کی درآمد کے ذریعے پوری کرنا ہوتی ہے۔
بھوک اور کم غذائیت سے متعلق عالمی انڈیکس (جی ایچ آئی)یعنی گلوبل ہنگر انڈیکس پر نظر ڈالیں تو پتاچلتاہے کہ اس انڈیکس کی تیاری کاکام 1992 میں شروع ہواتھا اس وقت بھوک اور کم غذائیت کے شکار لوگوں کی شرح کے حوالے سے پاکستان کی حالت یقینا آج سے بہت زیادہ خراب تھی لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے کوششیں شروع کیں اور 2000 تک حالات میں اس حد تک بہتری آگئی تھی کہ ہماری جی ایچ آئی کی شرح 37.8 تک آگئی تھی لیکن سن 2000 کے بعد صورتحال دوبارہ بتدریج خراب ہونا شروع ہوئی اور 2016 کی رپورٹ اب پاکستان میں جی ایچ آئی کی شرح 33.4 ہوگئی ہے۔جس کے نتیجے میں آج پاکستان میں اور خاص طورپر پاکستان کے دیہی علاقوں میں حاملہ خواتین اور 5سال سے کم عمر بچوں میں غذائیت کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کامظاہرہ گزشتہ دنوں تھر کے علاقے میں بچوں کی اموات کے پے درپے واقعات سے لگایاجاسکتاہے۔
پاکستان میں بھوک اور کم غذائیت کی سنگین صورت حال کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ2011 میں غذائیت کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے رپورٹ سے انکشاف ہواتھا کہ پاکستان میں 58 فیصد گھرانے خوراک کے معاملے میں عدم تحفظ کاشکار ہیں یعنی انھیں یقین نہیں کہ انھیں پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی مل سکے گی یانہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاتھا کہ ہمارے ملک میں 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے غذائیت کی شدید کمی کاشکار ہیں،32 فیصد بچوں کاوزن ان کی عمر کے اعتبار سے کم ہے،یعنی وہ اوسط وزن میں کمی کا شکار ہیں۔15 فیصد بچے کم غذائیت کی وجہ سے لاغر ہیں، اور62 فیصد بچے خون میں آئرن یعنی فولاد کی کمی سے متاثر ہیں جس کی وجہ سے ان کی اموات کی شرح میں اضافہ ہورہاہے۔
2011 کی اس سروے رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیاتھا کہ پاکستان میں مجموعی طورپر18 فیصد جبکہ دیہی علاقوں کی 20 فیصد مائیں کم وزنی یعنی لاغری کاشکار ہیں،سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا تھا کہ ملک میں لوگوں اور خاص طورپر حاملہ خواتین اور کم عمر بچوں کو پوری غذائیت نہ ملنے کے سبب جسم میںآئرن، زنک،آیوڈین،وٹامن اے اور ڈی اور دیگر معدنیات کی کمی عام ہے۔2014 کی عالمی فوڈ سیکورٹی انڈیکس میں دنیا کے 109 ممالک میں پاکستان کانمبر 77 واں تھا۔
پاکستان جیسے خوراک میں خودکفیل ملک کے حکمرانوں کے لیے یہ بات یقیناباعث شرم وندامت ہونی چاہیے کہ اس ملک کی کم وبیش50 فیصد آبادی بھوک اور کم غذائیت کاشکار ہے اور ہمارے حکمراں ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اورمعیشت کو مستحکم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب چین ، کیوبا اوروینز ویلا جیسے ممالک کے عوام کو بھی اسی طرح کم غذائیت کے مسئلے کاسامنا تھا لیکن ان ممالک کے حکمرانوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوششیں کیں اور اب چین ،کیوبا،وینزویلا یہاں تک کہ گھانا جیسا ملک بھی اس کیفیت سے نکل چکاہے۔ان ملکوں نے گزشتہ16 برسوں کے دوران اپنے عوام کی غذائیت کی کمی دور کرنے اور انھیں پیٹ بھر روٹی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کی جو رنگ لائی ،لیکن ہمارے حکمراں غالبا ً اس کو کوئی مسئلہ ہی تصور نہیں کرتے .
جہاں تک بھوک اور کم غذائیت کے مسئلے کاسوال ہے تو ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی جہاں غربت کی سطح پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بتائی جاتی ہے اس مسئلے کا بری طرح شکار رہاہے لیکن وہاں کے حکمرانوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی کے تحت کام کیااور گزشتہ16 برسوں کے دوران آئی ایچ آئی کی شرح میں 25 فیصد سے زیادہ کمی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
آج بھوک اورکم غذائیت کے اعتبار سے اگر بھارت اور پاکستان کا موازنہ کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں بھوک اور کم غذائیت کے شکار لوگوں کی شرح 22 فیصد جبکہ بھارت میں صرف 15 فیصد ہے۔بھارت میں روزمرہ ضرورت خاص طورپر غذائی اشیا کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں کم از کم 30 فیصد کم ہیں ۔
اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی حکومت کاشتکار کی حالت بہتر بنانے اور اجناس کی پیداوارمیں اضافے کی ترغیب دینے کے لیے کسان کو سرکاری سطح پر سہولتیں فراہم کرتی ہے ، جبکہ پاکستان میں حکمران اجناس کی قیمت خرید میں مسلسل اضافہ کرکے کسان کو خوشحال بنانے کی کوشش کرتے ہیںجس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ 2008 میں حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت خرید جو کہ اس وقت 625 روپے فی 40 کلو گرام تھی بڑھا کر یکدم سے 950 روپے مقرر کردی اور دعویٰ کیا کہ اس سے ملک کے کسانوں کو زیادہ اناج اگانے کی ترغیب ملے گی لیکن یہ خیال نہیں کیاگیا کہ گندم کی قیمت میں اس اضافے سے براہ راست ملک کاعام آدمی مزدور ،محنت کش ،سفید پوش اور خود کسان متاثر ہوگا۔ اسی پر بس نہیں کیاگیا بلکہ اب جبکہ عالمی منڈی میں 40 کلوگرام گندم کی قیمت ایک ہزار روپے کے مساوی ہے پاکستان میں گندم کی قیمت فروخت 1300 روپے مقرر ہے ۔
اس کے برعکس بھارت میں کاشتکاروں کوحکومت کم قیمت پر اچھے اور معیاری بیج اور کھاد فراہم کرتی ہے جبکہ ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کی شرح بھی بہت کم رکھی گئی ہے جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس بیج اور کھاد کی قیمتیں اول تو آسمان پر ہیں اور پھر فصل کی بوائی کے وقت ان کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ان کو مزید مہنگا کردیا جاتاہے اور حکومتی سطح پر اس چوربازاری اور لوٹ مار کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نظر نہیں آتی غالبا ً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ یا توہمارے بعض ارکان اسمبلی اور وزرا خود کررہے ہوتے ہیں یا ایسا کرنے والوں کو ان کی آشیر واد حاصل ہوتی ہے۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ ارباب حکومت کو یہ نہیں معلوم کہ گندم کی قیمت کے اثرات تمام اشیائے ضروریہ یعنی بنیادی ضرورت کی تمام اشیا پر پڑتے ہیں اور اگر گندم مہنگی ہوگی تو تیل گھی، دالیں، شکر، گڑ، مصالحے اورسبزیاں تک مہنگی ہوجائیں گی اور ان کو استعمال کرنے والے بھی اس ملک کے غریب عوام اور کاشتکار ہی ہیں۔
حکومت کو اس صورتحال پر فوری توجہ دینی چاہیے اور ملک کی ترقی اور معیشت میں بہتری کے نمائشی اعدادوشمار پیش کرکے اور غیر ملکی اور ملکی قرضوں میں ہوشربا اضافہ کرکے ملک کے زرمبادلے کے ذخائر بلند ترین سطح پر پہنچانے کے مصنوعی دعوے کرنے کی بجائے ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے اور لوگوںکو مناسب قیمتوں پر اشیائے ضروریہ اور ادویہ کی فراہمی یقینی بنا کر بھوک اور کم غذائیت کے مہیب دیو کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں