نیا پاکستان یا نئی قوم ؟
شیئر کریں
سید عامر نجیب
معروف مغربی مفکر بر ٹینڈ رسل نے مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کی وفات پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے کہا کہ ” یہ خبر سن کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں یکا و تنہا رہ گیا ہوں جیسے وہ دریا خشک ہوگیا جسکی موجوں سے ہمیں زہنی و فکری سرور حاصل ہوجایا کرتا تھا ۔فیثاا غورث ، سقراط اور ہیگل کے بعد شاید یہ سب سے بڑے انسان کی موت ہے “ برطانوی مورخ ٹائن بی نے مولانا کی وفات پر ان جملوں میں تعزیت کا اظہار کیا ۔
” تاریخ کی گھتیاں سلجھانے والا ہاتھ شل ہوگیا ۔ ماضی ، حال اور مستقبل پر دور تک نظر رکھنے والا چلاگیا ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ایک ایسی روشنی سے محروم ہو گئی جس سے انسانی تاریخ کی پُرپیچ اور تاریک راہوں کا سراغ لگانا مشکل ہو جاتا تھا“ ۔ روسی حکومت نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ ” روس میں انقلاب کی کامیابی انکی صدائے انقلاب کی بھی رہین منت ہے روس کے عوام اس عظیم انسان کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ چین کی وزارت خارجہ نے مولانا کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ” چین کے عوام کے لئے آج صدمے کا دن ہے وہ اپنے ایسے ہمدرد سے محروم ہوگئے ہیں جس نے ہر مشکل وقت میں انکی حمایت کی ہمارے سر اس عظیم انقلابی اور عوام کے دوست کے سامنے خمیدہ ہیں “ ۔
برٹینڈ رسل اور ٹائن بی جیسے مفکرین جس کی عظمت کے گُن گائیں ، روس اور چین کی حکومتیں جسکے احسانات کا اعتراف کریں حیرت انگیز ذہانت اور الہامی بصیرت رکھنے والا عظیم لیڈر خود اپنی قوم کے فکری و عملی جمود اور اس کی بے بصیرتی کے سامنے کسقدر بے بس تھا اس کا اندازہ ان کی تقریر کے اس اقتباس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ ” افسوس کہ تم حقیقی اور سچی بات کہنے والوں کو پسند نہیں کرتے ، تم نمائش کے پجاری ، شور و ہنگامے کے بندے اور وقتی جذبات و انفجار ہیجان کی مخلوق ہو تم میں نہ امتیاز ہے نہ نظر نہ تم جانتے ہو نہ پہچانتے ہو تم جس قدر تیز دوڑ کے آتے ہو اتنی ہی تیزی سے فرار بھی کر جاتے ہو ، تمہاری اطاعت جس قدر سہل ہے اور تمہاری ارادت جتنی سستی ہے اتنا ہی تمہارا انحراف آسان ہے پس نہ تو تمہاری تحسین کی کوئی قیمت ہے اور نہ تمہاری توہین کا کوئی وزن نہ تمہارے پاس دماغ ہے نہ دل ، وساوس ہیں جنکو تم افکار سمجھتے ہو ، خطرات ہیں جنکو تم عزائم کہتے ہو ©، خدارا بتلاﺅ میں تمہارے ساتھ کیا کروں “ ۔
کتنا بڑا عالم دین ، دانشور ، مفکر ، سیاستدان ، تاریخ دان ، ادیب ، صحافی اور مستقبل کو دور تک دیکھنے والا لیڈر جس کی رہنمائی سے ایک دنیا نے فائدہ اُٹھایا اسکی رہنمائی اپنی قوم کے نزدیک بے وقعت کیسے ہوگئی ؟ دنیا کی نظر میں ہیرو اپنی قوم کا ہیرو کیوں نہیں بن سکا ؟ جب قومیں تعصب کی زبان بولنے لگیں تو انھیں سمجھ بھی ایسی ہی زبان آتی ہے ، جب تنگ نظری اور تقلید شعار بن جائے تو علم ، عقل اور دانائی کی بات قابل فہم نہیں رہ جاتی ۔ جب قومیں آزادانہ طور پر اپنی تعمیر کا پروگرام بنانے کے بجائے رد عمل کی نفسیات میں جینے لگیں تو پھر وہ صحیح اور غلط کی پہچان کھو بیٹھتی ہیں نہ و ہ منزل کا درست انتخاب کرسکتی ہیں اور نہ رہنما کا ۔
ہماری سیاسی قیادتوں کا علمی و فکری قد کاٹھ بتا رہا ہے کہ ہماری قوم کے ساتھ آج بھی وہی المیہ ہے جو ماضی میں رہا ہے جذباتی قوم کو سنجیدہ کیسے کیا جائے ؟ اس قوم کو کس قسم کی سرجری کی ضرورت ہے کہ اسے عقل کی بات سمجھ میں آسکے وہ کونسی فکری غذائیں ہیں جو اسے رہزن اور رہنما کا فرق سمجھا سکیں ؟ کیا نئے پاکستان کا خواب ان سوالوں کا جواب دیئے بغیر پورا ہو سکتا ہے مسئلہ نہ سیاسی قیادت کی تبدیلی کا ہے اور نہ حکومت کی تبدیلی کا ۔ اصل مسئلہ تو قوم کی تربیت کا ہے قوم کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی کا ہے ، قوم کے افراد کو اعلیٰ شخصی اوصاف کے حامل بنانے کا ہے ، قوم کی جذباتی اور احمقانہ ذہنیت کے خاتمے کا ہے ۔ ان عوامل کے خاتمے کا ہے جنکی وجہ سے معاشرے میں سطحیت ، جذباتی پن ، تعصب ، جہالت ، عدم برداشت ، تنگ نظری اور کرپٹ نا اہل قیادتوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔
تحریک انصاف عمران کی قیادت میں بڑی شدت سے نئے پاکستان کی دعویدار ہے ۔ نئے پاکستان کے لئے نئی قوم کی تعمیر لازمی ہے ۔ قوم کی تعمیر کے لئے تحریک انصاف کے پاس کونسا پروگرام ہے بظاہر نظر نہیں آتا ۔ مروجہ نظام میں تحریک انصاف فعال اپوزیشن کر رہی ہے یقیناً اس کا فائدہ ملک کو ہو رہا ہے حکومت کے کچھ مثبت کاموںکا کریڈٹ اصلاً تحریک انصاف کو جاتا ہے اس لئے موجودہ سیاسی ماحول میں تحریک انصاف کو غنیمت قرار دینے تک بات درست ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھنے لگے کہ تحریک انصاف کوئی انقلابی تحریک ہے یہ نیا پاکستان بنا سکتی ہے تو معذرت کے ساتھ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے ۔ جس طرح سڑکیں اور پُل بنانے سے قوم نہیں بنتی اسی طرح محض پولیس اور پٹواری کے نظام میں کچھ اصلاحات کرنے سے بھی قوم نہیں بن سکتی اور جب تک قوم قوم نہیں بنتی نیا پاکستان بھی نہیں بن سکتا۔