محکمہ ماحولیات ، رشوت کی وصولی کیلئے ڈائریکٹر جنرل سیپا بے باک
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات کے ماتحت سیپا نے قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑادیں۔ ماحولیاتی منظوریوں میں تاخیر کر دی۔ مبینہ طور پر رشوت نہ دینے پر کیسز نمٹانے میں تاخیر کا انکشاف۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے سال 2021 سے لے کر 2023 تک مختلف منصوبوں پر ای آئی اے کی منظوری دی جبکہ مختلف اداروں نے ای آئی اے کے کیسز سیپا میں جمع کروائے لیکن سیپا افسران 4 ماہ کی مدت کے دوران وہ کیسز نمٹانے میں ناکام ہو گئے۔ سال 2021 میں سینو پاک ریفائنری کارپوریشن لمیٹڈ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی جبکہ سال 2022 میں جی بی ہولڈنگس، آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹڈ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، رومی آئکونک بلڈرز اینڈ ڈیولپرز، الماس بلڈرز اینڈ ڈیولپرز، کے الیکٹرک ،کیڈواری بلاک، ایس پی اے انٹرپرائز اور جناح اسپیشل اکنامک زون کے گرین انٹرنیشنل ڈولپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے کیسز التواء کے شکار ہیں۔ سیپا کی جانب سے ای آئی اے کیسز نہ نمٹانا سیپا ایکٹ 2014 کی خلاف ورزی ہے۔ سیپا کی ڈیپارٹمنٹل ایکشن کمیٹی کا اجلاس یکم دسمبر 2023 کو منعقد ہوا اور ڈی اے سی نے ہدایت کی کہ ای آئی اے کے تمام کیسز بلا تاخیر نمٹائے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے ڈائریکٹر جنرل سیپا نعیم احمد مغل سال 2008 سے عہدے پر براجمان ہیں اور ان کی موجودگی میں پہلے بھی ماحولیاتی منظوریوں کے کیسز نمٹانے میں تاخیر کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے بلڈرز سمیت نجی کمپنیوں سے کروڑوں روپے رشوت وصول کر کے ای آئی اے کیسز منظور کئے جاتے ہیں اور مالی معاملات طے نہ ہونے کے باعث کیسز منظور کرنے میں تاخیر کی گئی ہے۔