سپریم کورٹ کے جج حضرات کے تاریخی ریمارکس
شیئر کریں
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی 5رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ تھا‘ وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں‘ نیب میں ریفرنسز بھجوانے پر بھی کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔بدھ کو پاناما کیس میں نواز شریف خاندان کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ بینچ نے بہت محتاط رہ کر پاناما کیس کا فیصلہ لکھا ہے اوریہ محض ایک جھلک ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کی تہہ میں جایا جائے تو پھر شکایت نہ کیجیے گا۔انہوں نے یہ ریمارکس اس وقت دیے جب نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ نہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر 62ون ایف کیسے لگ سکتا ہے؟سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ 28 جولائی کا5رکنی بینچ درست نہیں تھا جبکہ درخواست گزارکو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث کے موکل نے 2 ارکان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے فیصلہ قبول کیا۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ فیصلہ اقلیتی تھا اوراقلیتی فیصلے کی قانونی اہمیت نہیں ہوتی ،عدالت عظمیٰ اس معاملے میں شکایت کنندہ، پراسیکیوٹر اور جج خود بن گئی ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ احتساب عدالت کو آزادی ہے جو چاہے فیصلہ کرے، آپ کے پاس موقع ہوگا کہ آپ گواہان اور جے آئی ٹی ارکان سے جرح کرسکیں گے۔خواجہ حارث نے کہا کہ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اس پر ان کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جا سکتا تھا۔ نواز شریف کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلیت نہیں بنتی تھی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ فیصلہ لکھنے والوں کو پتا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا، عدالتی فیصلے میں اختلاف صرف جے آئی ٹی کے معاملے پر تھا۔ تینوں میں سے کسی جج نے نہیں کہا کہ وہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ 28 جولائی کو ہم 2 ججز نے صرف حتمی فیصلے پر دستخط کیے تھے، نااہلی اور ریفرنس نیب کو بھیجنے کے معاملے پر ہمارا نتیجہ ایک ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر ہرجج دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ 3ججز نے فیصلہ تبدیل کیا تو عدالتی حکم تبدیل ہوجائے گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں 3ججز کوہی اپنے دلائل سے قائل کرلیں آپ نے 3ججز کو مطمئن کرنا ہے انہیں کرلیں، ہم 2ججز 3ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 62ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ نااہلی تاحیات ہو گی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کو صادق اور امین نہ قرار دینا معمولی بات نہیں، عدالت نے طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر نااہل کیا اور اپیل کا حق نہیں دیا، اثاثے ظاہر نہ کرنا بدنیتی تھی یا قانونی پیچیدگی اس کا تعین نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون نہیں ہوسکتا۔خواجہ حارث نے کہا کہ وہ تنخواہ جو نہیں لی گئی اس پر نااہلی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ یہ وہ کیس نہیں جس میں تنخواہ ملازم کے ہاتھ میں دی جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کے مطابق 10ہزار تنخواہ تسلیم کرنا نااہلی کے لیے کافی نہیں تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تنخواہ ان کے موکل کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قانون کے مطابق تنخواہ ملازم کے ہاتھ پر نہیں رکھی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق آپ کی تنخواہ مقرر تھی، معاہدے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ تنخواہ نہیں لیں گے، وصول نہ کی گئی تنخواہ بھی اثاثہ ہوتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقامہ معطل ہونے کی صورت میں ہی تنخواہ ختم ہوسکتی ہے۔
نااہل قرار دیے گئے وزیر اعظم نواز شریف کی نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان نے نواز شریف کے وکیل کے اعتراضات کاجس تحمل کے ساتھ جواب دے کر انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے وہ قابل تعریف اور عدل اور انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے ، کیونکہ انصاف اور عدل کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس سے دونوں فریق اپنی جگہ مطمئن ہوجائیں ، اس حوالے سے جسٹس اعجاز الاحسن کا یہ کہنا اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے کہ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون نہیں ہوسکتا۔
یقیناً عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ حقدار کو پورا پورا حق ادا کر دیا جائے اور ظالم کو اس کے جرم کی صحیح سزا ملے تاکہ مظلوم کے جذبہ انتقام کو بذریعہ قانون تسلی و تشفی ہو وگرنہ معاشرے میں جرم در جرم ہوتے رہیں گے اور لوگ انصاف نہ ملنے پر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ اسلام مکمل عدل کی ہدایت کرتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ جیسا کہ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں عدل و انصاف کے بارے میں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر8 میں فرمایا!
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ (سورۃالمائدہ : 8)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا۔ ترجمہ: اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتے دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ (سورۃ الانعام آیت 152)
ان آیات مبارکہ سے عدل وانصاف کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل کس قدر حساس اور لازمی ہے کہ اس کے تقاضوں کو اللہ کے ڈر خوف کے ساتھ انجام دیا جائے اور اگر عدل کرتے ہوئے اپنا قریب ترین عزیز رشتے دار بھی اس کی زد میں آ رہا ہو تو رشتوں کی پرواہ کیے بغیر عد ل کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور ہر طرح کے تعلق، سفارش یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں کو پائے استحقار سے ٹھکرادیا جائے تاکہ منصف بارگاہ ایزدی میں سرخرو ہو اور مظلوم کی داد رسی ہو اور مقتدر صاحب ثروت یا اقتدار اور دولت کے نشے میں چور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ ظلم و تعدی سے باز رہیں اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب بے لاگ انصاف ہو، جو اب تک ہمارے معاشروں میں مفقود رہاہے جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے، اور ہم قوموں کی برادری میں بے وزن ہو کر رہ گئے ہیں۔
عدل کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ منصف کے فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ عدل کایہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا وہاں امن سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔آج پوری دنیا پر نظر ڈالیں تو بھی یہی بات واضح نظر آتی ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں عروج پر نظر آنے والی اقوام میں موجود تمامتر خرابیوں ایک خوبی ضرور موجود ہے کہ ان ملکوں میں ایسا نظام انصاف قائم ہے جس کے ذریعے شاہ وگدا کے ساتھ مساوی سلوک کیاجاتاہے اور کوئی بھی اپنے جرم کی سزا سے نہیں بچ پاتا۔
اسلام میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ عدل و انصاف کرنے والی قومیں دنیا میں عروج حاصل کرتی ہیں اور ان کے معاشروں میں امن واستحکام ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔عدل کے برخلاف ظلم قوموں کو تباہ برباد کر دیتے ہیںیہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں عدل وانصاف کے احکامات دیے ہیں اور قوموں کی بقا کی ضمانت بھی اسی وصف عالیہ میں مضمر ہے۔
آج ہمارے ملک میں تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز رہنے والا شخص اپنے خلاف ایک عدالتی فیصلے پراپنے حامیوں کے ساتھ سڑکوں پر عوام کو عدلیہ کے خلاف اُکسانے اور فیصلے کو غلط قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے عدل وانصاف کی دھجیاں بکھیرنے کی کوشش کررہاہے اور دعویٰ یہی کرتاہے کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا،اس صورت حال کاتقاضا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ انصاف کی بہترین مثالیں قائم کرکے ہر ایک پر یہ واضح کردے کہ اب اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ نہیں چلے گا اورہر کسی کو بلا استثنیٰ انصاف ملے گا۔