مقامی سرمایہ کاروں کا چینی کمپنیوں پر حکومت کی کرم نوازیوں کا شکوہ
شیئر کریں
چینی کمپنیوں کو ٹینڈر اور مقابلے کے بغیر بہت زیادہ شرح پر ٹھیکے دینے کا دعویٰ، چینی کمپنی ‘اسٹیٹ گرڈ’ کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا،خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ
ہم پاکستانی لوگوں کے خدشات دور کرنے کے لیے اپنے گروپ میں زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،چیئرمین چائنا پاور انٹرنیشنل
ایچ اے نقوی
پاکستان میں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک)، جو چین کے ’ایک سڑک، ایک خطہ‘ منصوبے کا ایک اہم جزو ہے، پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں سے کیے جانے والے معاہدوں پر حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور چینی کمپنیوں کو کسی ٹینڈر اور مقابلے کے بغیر بہت زیادہ شرح پر ٹھیکے دینے اور مختلف منصوبوں پر مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے کم شرح پر کام کرنے کی پیشکش کے باوجود زیادہ شرح پر ٹھیکے دینے کے الزامات عاید کئے جارہے ہیں ،اس کے ساتھ یہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس منصوبے کو تیزی سے مکمل کرنے میں پاکستان کا زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔
دوسری جانب چینی حکومت کی جانب سے سرکاری فنڈنگ کرنے والے بینکوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ سلک روڈ منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کو قرض فراہم کریں۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چائنا ڈیولپمنٹ بینک (سی ڈی بی) اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا (ای ایکس آئی ایم) کے 2 عہدیداروں نے بتایا کہ وہ پاکستان اور اس خطے میں ’ایک سڑک، ایک خطہ‘ منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کو قرض دینے کے سلسلے میں ترجیح دے رہے ہیں جو چین سے خام مال یا دیگر سازو سامان کی درآمد کرتے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی کمپنی ’جنرل الیکٹرک‘، چینی کمپنی ’اسٹیٹ گرڈ‘ سے 25 فیصد کم لاگت میں ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے کے لیے تیار تھی جبکہ اس معاہدے کے لیے پاکستان نے چینی کمپنی کو زیادہ رقم ادا کی ہے۔
پاکستان میں پاور مینجمنٹ کے آزاد ادارے نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے ایک عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ چینی کمپنی ‘اسٹیٹ گرڈ’ کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے جبکہ اسی منصوبے میں دیگر کمپنیوں سے کیے جانے والے معاہدوں میں یہ پیشکش شامل نہیں تھی،تاہم پاکستانی حکومتی عہدیداروں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔دوسری جانب ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے والی ‘اسٹیٹ گرڈ’ کی ذیلی کمپنی چائنا الیکٹرک پاور ٹیکنالوجیز کمپنی لمیٹڈ (سی ای ٹی) کا کہنا ہے کہ جس قیمت کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ مناسب ہے۔پاکستان نیشنل ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر نے اسٹیٹ گرڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بہت ہی مناسب قیمت ہے‘۔
پاکستان میں بجلی کے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والی چین کی ایک اعلیٰ کمپنی کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا مقصد منافع حاصل کرنا نہیں بلکہ وہاں پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) نے چینی نیوز ایجنسی شنہوا کے حوالے سے اپنی خبر میں بتایا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت میں شامل چائنا پاور انٹرنیشنل کے چیئرمین وانگ بنگ ہوا کا کہنا ہے کہ ‘ہم پاکستان میں اپنے آلات کی تنصیب فائدہ حاصل کرنے نہیں بلکہ پائیدار ترقی اور تباہ ہوتی مقامی صنعت کو مستحکم کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔چائنا پاور انٹرنیشنل کے چیئرمین نے یہ بات بلوچستان کے علاقے حب میں کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران کہی۔خیال رہے کہ یہ پلانٹ 2 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہوگا، اس میں بنگ ہوا کی پاور کمپنی اور پاکستان کی حب پاور کمپنی شراکت دار ہے جبکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس پاورپلانٹ سے اگست 2019 تک بجلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔چائنا پاور انٹرنیشنل کمپنی کے چیئرمین نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وعدہ کیا کہ منصوبے میں پاکستان کے گریجویٹ افراد کو تربیت اور روزگار فراہم کیا جائے گا، جب کہ یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے افراد اگر کسی اور جگہ کام کرنا چاہیں گے تو بھی انہیں موقع فراہم کیا جائے گا۔ان کے مطابق حب میں بننے والا بجلی گھر سالانہ 9 ارب کلو واٹ آور (kWh) بجلی پیدا کر سکے گا، جب کہ پلانٹ لگنے سے 10 ہزار مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وانگ بنگ ہوا نے بتایا کہ ہم پاکستانی لوگوں کے خدشات دور کرنے کے لیے اپنے گروپ میں زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی حب پاور پلانٹ پر سیفٹی، قابل اعتماد آپریشنل سسٹم، دوستانہ ماحول، معاشی استحکام اور معیار کو مدنظر رکھ کر کام کرے گی، جب کہ منصوبہ بلوچستان اور مقامی افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
وانگ بنگ ہوا نے بتایا کہ ان کی کمپنی پاور پلانٹ کے قریب ہی سیمنٹ فیکٹری لگانے کا اردہ رکھتی ہے، تاکہ پاور پلانٹ میں جمع ہونے والے کچرے کو بھی قابل استعمال بنایا جاسکے۔
دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے شفاف ہیں جو پاکستان اور چین کے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی ترقی کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چینی کمپنیوں کی برتری جاری رہے گی جبکہ ’ایک سڑک، ایک خطہ‘ منصوبے کے تحت دونوں ملک 57 ارب ڈالرز کی لاگت سے پاکستان میں پاور پلانٹس، بندرگاہیں، ریلوے لائنیں اور سڑکیں بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو مزید تیز کیا جائے گا۔ان حکومتی معاہدوں کے تحت مٹیاری سے لاہور تک 878 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی جائیں گی۔پاکستانی حکام کے مطابق ان معاہدوں کی نیلامی کے دوران باقاعدہ مقابلہ سامنے نہیں اآیا اسی لیے گذشتہ برس دسمبر میں یہ منصوبہ چینی کمپنی کے سپرد کردیا گیا۔دوسری جانب حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ چینی کمپنی سے 2016 میں جب مذاکرات ناکام ہوئے تھے تو جنرل الیکٹرک، سیمنز اور سوئٹزرلینڈ کی اے بی بی کی جانب سے رابطہ کیا گیا تھا۔واپڈا کے سابق سربراہ محمد یونس ڈھاگا نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے گذشتہ برس اگست میں پیرس پاور کانفرنس کے دوران علیحدہ ملاقات کی تھی جہاں انہوں نے ان ٹرانسمیشن لائنوں کے معاہدے کے بارے میں غیر رسمی بات چیت کی تھی۔نیپرا کی دستاویزات
کے مطابق جنرل الیکٹرک نے ابتدا میں کنورٹر اسٹیشنز کے لیے اسٹیٹ گرڈ کے ایک ارب 26 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 80 کروڑ ڈالر کا تخمیہ دیا تھا۔واپڈا کے سابق سربراہ کے مطابق جب یورپی کمپنیوں سے کہا گیا کہ وہ منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے اسٹیٹ گرڈ کی ٹائم لائن کو میچ کریں تو ان کمپنیوں کا کہنا تھا کہ اتنے کم عرصے میں ان منصوبوں کا مکمل ہونا ناممکن ہے۔
دوسری جانب حکومتی اور نیپرا کے عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان پر مقامی سطح پر ان منصوبوں کو تیز کرنے کا دباؤ ہے۔نیپرا عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ گرڈ کی قیمتوں کو منظور کرنے کا دباؤ ڈالا جارہا ہے اور متنبہ کیا جارہا ہے کہ چینی معاہدے سے الگ ہوکر دستبردار ہو سکتے ہیں۔تاہم حکومت کی جانب سے نیپرا کے دعوؤں پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ نیپرا کی وجہ سے ماضی میں بھی ان منصوبوں کی رفتار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اس معاملے پر نیپرا حکام کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسٹیٹ گرڈ کو معاہدے میں ا?سانی پیدا کرتے ہوئے ٹیرف پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں 7.5 فیصد تک کمی کردی ہے، جو یہ کمپنی 25 سال تک صارفین سے وصول کرے گی۔تاہم وفاقی حکومت اور این ٹی ڈی سی کی جانب سے وِد ہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔دوسری جانب وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے پاکستان کی جانب سے بجلی کے بنیادی ڈھانچوں کے لیے چینی کمپنیوں کو ترجیح دینے یا زیادہ ادائیگیوں کے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ، ‘اس نتیجے کو تھوڑا سا غلط یا مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے’۔وزارت پانی و بجلی کے ایک سابق عہدیدار اشفاق محمود کے مطابق بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی پاکستانی ضرورت نے اس کے بڑے پڑوسی (چین) پر مخصوص انحصار کو ناگزیر بنایا دیا ہے۔ان کا کہنا تھا، ‘یہ چینیوں کے لیے ایک موقع ہے اور ہم ان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے’۔