اب کیا ہوگا ؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میںگزشتہ 13 ماہ سے جاری سیاسی اور معاشی بحران مزید شدّت اختیار کرگیا ہے ۔اس عدم استحکام کی وجہ سے تاجروں اور صنعت کاروں کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں پر عوام کابھرپور اعتماد ہو جو اب پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کی افواہیں بھی گردش میں ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کے بعدپی ٹی آئی کے ہزاروں کارکن گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ عمران خان مکمل سیاسی لڑائی کے موڈ میں ہیں ۔ہنگا موں کے دوران درجنوں نوجوان ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہیں جبکہ کئی ہزار کارکنوں کی گرفتاری اور پاکستان تحریک انصاف کے اجتماعات پر رکاوٹوں اور پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ملک بھر میں اس کے کئی دفاتر بند کردیے گئے ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی پر غیر اعلانیہ پابندی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ چھاپوں اور گرفتاریوں سے بچنے کے لیے بے شمار کارکنوں نے محفوط مقامات پرپناہ حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کردیاہے جبکہ بعض کاکن بیرون ملک اور سرحد پار بھی جاسکتے ہیں۔ کئی صحافی بھی بیرون ملک جاچکے ہیں ۔مسلم لیگ ن اور اسکی اتحادی جماعتیں عمران خان اور انکی جماعت کو ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دے رہی ہے لیکن بعض اتحادیوں کی مخالفت کی وجہ سے باقاعدہ پابندی ممکن نہ ہوسکی۔ ہنگاموں کے دوران اندھا دھند گرفتاریوں کے دوران بے شمار راہگیروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اگر وہ اپنا دفاع نہ کرسکے توطویل عرصے تک جیل میں رہ سکتے ہیں۔ انتظامی اقدامات سے عمران خان اور ان کی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کا سلسلہ10 اپریل 2022 سے جاری ہے۔ اس کا آغاز میڈیا میں پا بندیوں کے ساتھ کردیا گیا تھا۔میڈیا کی ساکھ خراب ہوگئی اور سوشل میڈیا کی مقبولیت بڑھ گئی ۔برسراقتدار جماعتوں کی ناقص کارکردگی اور بد ترین مہنگائی سے بھی برسراقتدار جماعتوں پر منفی ا ثر ہوا اور پی ٹی آئی مزید مقبول ہوگئی ۔کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی نے بیشتر ضمنی انتخابات میں برسر اقتدار جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دے دی موجودہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے گئے، اس کے نتائج سے برسر اقتدا جماعتوں کی مقبولیت کم ہوتی چلی گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ برسراقتد جماعتوں کے ہاتھ میں الٹی نالی کی بندوق ہے جس کی گولی خود چلانے والے کو جالگتی ہے۔
آج کے حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے حالات میں بہتری کے لیے فہم و فراست اور تدبّر سے کام نہیں لیا جارہا یاکوئی بہت بڑی طاقت پاکستان کو کسی خطرناک انجام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ موجودہ وقت میں امکانی طورپر اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگادی جائے، اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے، عمران خان کو قتل کردیا جائے یا پھر آرمی ایکٹ لگا کر انہیں بیس سال کی سزا دے دی جائے اور آئندہ انتخابات میںکسی طرح بلاول بھٹوکو وزیر اعظم بنا دیا جائے اس ہدف کو حاصل کرنا کتنا مشکل ہوگا۔ پنجاب میں جماعت اسلامی ان حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیز ی سے سرگرم ہے۔ وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ تحریک لبیک کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ اس سے ملک میں استحکام نہیں آئے گابلکہ بحران گہرا ہوجائے گا۔ پاکستان میں طاقت کے ذریعے اگر پی ٹی آئی کو دبادیا جائے ا س صورت میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بڑے بڑے مظاہرے مزید بڑھ جائیں گے۔ پاکستان میں قریباً ایک لاکھ افراد کو گرفتا ر کرنا ہوگا۔ پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں بے شمار لوگ سرحد پار جا سکتے جس کی ماضی کی مثالیں مو جود ہیں۔ 1975 میں جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی تو بے شمار لوگ افغانستان اور دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے پہنچ گئے تھے۔ اگر آج کے دور میں ایسا ہواتو زیادہ خطرناک ہوگا۔تحریک انصاف کو میدان سے باہر کرنے کا عمل ملک سے سرمائے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کے بیرون ملک پرواز کا سبب بنے گا جس کا آغاز ہو چکا ہے۔
میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ صحافی عمران ریاض خان کو پہلے حراست میں لیا گیا۔ بعد ازں وہ غائب کردیے گئے ۔ایک اور صحافی اوریا مقبول جان کی گرفتاری ہوچکی ہے۔ ان کے بارے میں بھی معلومات نہیں مل رہی ہیں، طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں لیکن کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ ایک خدشہ مارشل لاء کا بھی ہے لیکن فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اسے مسترد کردیاہے۔ تحریک انصاف جلد عمران خان کی گرفتاری کے مسئلے پر رینجرز اور نیب کے خلاف قانونی کارروائی کاارادہ رکھتی ہے۔ عمران خان نے ایک پیغام جاری کیا ہے کہ مجھے دس سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ میری بیوی کو بھی گرفتار کیا جائے میں موت کو قبول کر لوںگا لیکن حقیقی آزادی کی تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔دس سے پندرہ روز کا کھیل باقی ہے ۔ کھیل تحریک انصاف ہی جیتے گی پاکستان میں جب 1958 میں جب مارشل لاء لگایا تو سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لوگ وقتی طور پر خوش ہوئے لیکن دس سال بعد جب ایوب خان نے اپنے خلاف اپنے گھر کے چھوٹے بچوں سے اپنے خلاف نعرے سنے تو انہوں نے مستعفی ہوکراقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا جو پہلے ہی اندرون خانہ اقتدار پر قبضے کی تیاری کررہے تھے ۔یحییٰ خان نے انتخابات کرادیے اور جیتنے والی پارٹی کو اقتدار نہ دیا نتیجے میں ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔آج ایک نیا دور ہے جو انتہائی تیز رفتار ہے۔ معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دن بھی ضائع ہوتا ہے تونقصان میں اضافہ ہوتاہے۔ اگر حالات یہی رہے تو معاملات کئی سالوں تک الجھے رہیں گے۔ واحد حل سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھاناہے جس کے لیے برسر اقتدار جماعتیں تیا ر نہیں ہیں۔ ان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نگراں حکومت کے ذریعے اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اور ان دو صوبوں میں مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی ہیں نہ ہی تحریک انصاف سے کسی سمجھوتے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے انتظامی طریقہ کار سے طاقت کے ذریعے تحریک انصاف کو کچلنے کاطریقہ استعمال کیا ہے جس کے لیے دس سے بیس سال لگ سکتے ہیں۔ البتہ مارشل لاء لگانے کی صورت میں یہ وقفہ کم ہوسکتا لیکن اس سے نئے مسائل جنم لیں گے ۔اسی لیے متعلقہ ادارے نے فی ا لحال مارشل لاء سے گریز کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے باوجودحالات ٹھیک نہ ہوئے تو خدشہ برقرار رہے گا۔
٭٭٭