میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۶ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

عطا محمد تبسم

پروفیسر خورشید احمد میرے رول ماڈل تھے ۔کئی حوالوں سے میں ان کی شخصیت سے بہت کچھ سیکھتا رہا، میں ان کا خاموش قاری، ان کی قلمی کاوشوں کا قدر دان، اور ان کے افکار کا خوشہ چیں رہا ۔ فاران کلب میں ایک تقریب میں پروفیسر خورشید احمد کا ویڈیو پیغام سنایا گیا۔ وہ بستر علالت پر تھے ۔ لیکن ان کا دل و دماغ مسلم امہ، اسلام ،اور پاکستان کے لیے سوچتا رہتا تھا، وہ اس وقت بھی نو جوانوں کو یہ بتا رہے تھے کہ ان کے کرنے کے کام کیا ہیں۔ وہ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی طاقت سے پوری طرح واقف تھے ، اور اس لیے وہ نوجوانوں کو اس سے پوری طرح آگاہ ہونے ، اور اسے استعمال کرنے کی تلقین کررہے تھے ۔ پروفیسر خورشید نے عمر بھر لکھنے پڑھنے سوچنے ، نئے خیال، اور نئے افق کی تلاش جاری رکھی۔ اللہ نے ان کے قلم میں ایسی برکت رکھی کہ وہ ہزاروں صفحات کے مضامین کا ورثہ چھوڑ گئے ۔ انھوں نے اردو اور انگریزی میں 100سے زائد کتابیں مرتب اور تصنیف کی۔ ان کی کتابیں اور مضامین عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشی، ہندی، چینی، کورین، فارسی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ اور شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد پر ملائیشیا، ترکی اور جرمنی کی اہم یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے ۔ان کی غیر مبطوعہ کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔ ان کے انٹرویوز ایک خزانہ ہیں۔ وہ آخری دنوں میں بھی ذہنی طور پر چاک و چوبند تھے ۔ اور اپنے خیالات تحریرریکارڈ کراتے تھے ۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے دامن میں بہت سے ہیرے جمع کرنے کا وسیلہ بھی بنے ۔ ایک مضمون میں لکھا۔”٥٢ـ١٩٥١ء میں اپنے حلقے کے ذہین ترین طلبہ کے اسٹڈی سرکل کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوئی۔ مسلم سجاد، ظفرآفاق انصاری، انیس احمد، محبوب علی، محمود علی، تنظیم واسطی، سیّد محمود، یہ سب اسی سرکل کے گل ہائے سرسبد تھے۔ میں نے تین مراحل پر مبنی اسٹڈی سرکل کئی سال چلایا، میں اور میرے ساتھی جمعیت کے دفتر پر ایک وال پیپر کی شکل میں ایک رسالہ بھی شائع کرتے تھے ۔ جسے ہم ہرہفتے تبدیل کرتے تھے اور جس میں دعوتی نکات کے علاوہ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔”
اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا اخبار ،”اسٹوڈنٹس وائس” کی مقبولیت بھی ان ہی کی مرہون منت تھی۔ ان کی ٹیم میں زبیرفاروقی، جمیل احمد خان، منظور احمد، انصار اعظمی اور جمیل احمد، حسین خان ، محبوب الہی قابلِ قدر معاونین تھے ۔ پروفیسر خورشید احمد کی صحافتی اور علمی کاوش کا شاہکار، "سوشلزم نمبر”دسمبر ١٩٦٨ء میں ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی شائع ہوا تو دھوم مچ گئی۔چراغ راہ ، کراچی میں جماعت اسلامی کی بنیاد مضبوط کرنے والے چوہدری غلام محمد کا پرچہ تھا۔ پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں اسلامی قانون نمبر، نظریہ پاکستان نمبر علمی مواد اور تحقیقی مضامین کے اعتبار سے بہت اہم تھے ۔جس کے بعد پروفیسر خورشید کا شمار ملک کے صف اول کے دانش وروں میں کیا جانے لگا۔ اس سے پہلے انھیں وائس آف اسلام کے ایڈیٹر بھی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس زمانے میں جمعیت الفلاح کی جانب سے تحریک پاکستان کے قائدین مولانا ظفر احمد انصاری اور بعض دیگر علمی شخصیات کی سرپرستی میں یہ ‘رسالہ شائع ہوتا تھا۔ ترجمان القران کی ادارت کی ذمہ داری خرم جاہ مراد کے بعد جنوری ١٩٩٧ء سے پروفیسر خورشید احمد کے سپرد رہی، جسے انھوں نے آخری وقت تک نبھایا۔ ان کے لکھے ہوئے اشارات، یاد رفتگاں، اور دیگر مضامین ہمیشہ پڑھنے والوں کی اولین پسند ہوتے ۔مغرب کی صحافت کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے حاشر فاروقی جیسے نابغے کو تلاش کیا ۔ جنہوں نے ایک ایثار پیشہ ،قناعت پسند اور سچے صحافی کی حیثیت سے امپیکٹ کو عالم اسلام کا ترجمان بنادیا۔ حاشر فاروقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ، انھوں نے لکھا۔”حاشر فاروقی عملاً مغربی دنیا میں مسلم صحافت کے حدی خواں تھے ۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے جو راہیں دکھائیں اورجو نقشۂ کار پیش کیا ، آنے والی نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ ان راستوں کو روشن کریں۔”ان کا خواب تھا کہ امپیکٹ جاری رہے ، تاکہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مسائل پوری قوت سے دنیا کے سامنے نہ صرف نمایاں ہونے لگیں گے بلکہ امت میں یکجہتی بھی پیدا ہو۔
ایٹمی سائنس دان ،قومی ہیرو ، ڈاکٹر قدیر خان سے اپنی پہلی ملاقات کو ذکر کرتے ہوئے ، انھوں نے لکھا”یہ ١٩٥٢ء کی بات ہے ، جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا۔ تب، کھوکھراپار کے راستے ، بے سروسامانی کے عالم میں بھوپال سے ہجرت کرکے آنے والے ایک درازقامت طالب علم سے ملاقات ہوئی۔ جس کی شرافت، نجابت اور شائستگی کا نقش پہلی ملاقات ہی میں ثبت ہوگیا۔ یہ نوجوان طالب علم ڈی جے سائنس کالج میں ایف ایس سی میں زیرتعلیم تھا اور والدین و اساتذہ کی دینی تربیت کے باعث، جمعیت کے رفقا سے قریب تر ہو گیا۔ آگے چل کر یہی نوجوان ڈاکٹر اے کیوخاں کے نام سے پاکستان کے جوہری پروگرام کا سرتاج بنا۔ پروفیسر خورشید احمد ، سید منور حسن ، اور ڈاکٹر انیس کو مولانا مودودی کی یہ محبت حاصل رہی کہ وہ انھیں پیار سے خورشیدمیاں، انیس میاں اور منور میاں کہا کرتے تھے ۔ اپنے جمعیت سے تعلق کے بارے میں خورشید صاحب نے بتایا کہ "١٩٤٩ء میں’ میں کراچی آگیا۔ بھائی ضمیر’ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکے تھے ۔ یہاں پہنچ کر میں نے مولانا مودودی کی کتابوں خطبات، تنقیحات اور محمداسد کی Islam at the Crossroads کا مطالعہ کیا۔ جمعیت سے وابستہ ہوا اور رکنیت اختیار کرنے کے بعد ١٩٥٠ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے خرم’ راجا (ظفراسحاق انصاری)، عبداللہ جعفر اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پھول بلڈنگ، گوالمنڈی لاہور پہنچا۔ اُن دنوں اس جگہ نصراللہ خاں عزیز صاحب کے اخبار تسنیم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔مولانا مودودی کاپروفیسر خورشید احمد کے والد سے دوستانہ تھا، ایک موقع پر انھوں نے مولانا سے بھی بیان کیا کہ اگرچہ میں تو جماعت میں نہیں آسکا،لیکن اپنا بیٹا جماعت کو دے دیا ہے ۔”اس فخر کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد نے کہا تھا”مولانا سے میرا ایک تعلق خاندانی ہے اور دوسرا نظریاتی۔ ان دونوں تعلقات کا ایک جگہ جمع ہونا میری خوش نصیبی ہے ۔”
پروفیسر خورشید نے اپنی زندگی کو اسلام کے لیے وقف کر نے فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ ایک مضمون میں یوں رقمطرازہیں۔”میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح سے میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی چمک دمک تھی اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا مُعمّا کہ ع
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے
اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا، وہ علامہ اسد کی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں