گیس پر وفاق و سندھ کا جھگڑا:وزیر اعلیٰ نے عوام کیلیے نہیں ،بحریہ ٹاﺅن کی خاطر وفاق کو للکارا،ذرائع کادعویٰ
شیئر کریں
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کا منصوبے میں 51فیصد حصہ ہے اورجلد بازی اس لیے
ہے کہ نوری آباد پلانٹ شروع کرکے بحریہ ٹاﺅن کو بجلی فروخت کرنے کا منصوبہ ہے
الیاس احمد
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سندھ اسمبلی میں شعلہ بیانی پر مبنی تقریر کو ملک بھر میں کوئی پذیرائی نہیں مل سکی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مراد علی شاہ اگر 37 دیہاتوں اور چھوٹے شہروں کو گیس فراہم کرنے کی لڑائی لڑتے تو شاید ان کو سندھ کے عوام کی پذیرائی ملتی اور پھر صوبہ بھر کے عوام ان کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے مگر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جیکب آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرنے والے خواجہ سعد رفیق نے بھانڈا پھوڑ دیا اور پیپلزپارٹی اور حکومت سندھ کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں مل رہی ہے کیونکہ خواجہ سعد رفیق نے دل کھول کر حکومت سندھ کو آڑے ہاتھ لیا اور سوال کر ڈالا کہ نوری آباد کا پاور پلانٹ کس کا ہے؟ اس پر سب بھیگی بلی بن گئے ۔صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ کو یہ کہنا پڑا کہ خواجہ سعد رفیق خود ہی نام بتادیں ،ظاہر بات ہے کہ ناصر شاہ خود بھی نام نہیں لے سکتے۔ مگر اصل کہانی کا دوسرا رخ بھی سامنے آگیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس پاور پلانٹ مےں 40 فیصد حصہ انور مجید کا نہیں بلکہ بڑے صاحب کا ہی ہے ،حالانکہ جو رپورٹس اب سامنے آئی ہیں اس کے مطابق صوبائی حکمراں جماعت کے بڑے صاحب کا حصہ 51 فیصد اور باقی حکومت سندھ کا ہے۔ کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑے صاحب کو اس لیے جلد بازی ہے کیونکہ اس پاور پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی بحریہ ٹاﺅن کو دینی ہے اور اگر اس پاور پلانٹ میں توسیع کی گئی تو یہ بجلی ڈیفنس فیز 9 کو بھی دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ڈیفنس فیز 9 بھی سپرہائی وے پر واقع ہے، نوری آباد سے آتے ہوئے پہلے فیز 9 اور بعد میں بحریہ ٹاﺅن آتا ہے، اس لیے نوری آباد پاور پلانٹ کو بحریہ ٹاﺅن اور ڈیفنس فیز 9 کو بجلی کی فراہمی میں کوئی مشکلات نہیں ہوں گی جب بحریہ ٹاﺅن تک بجلی فراہم کی جائے گی تو جو ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی ،کھمبے لگائے جائیں گے تو ان کے لیے ڈیفنس فیز 9 کے لیے بجلی فراہم کرنا آسان کم قیمت بھی ہوگا کیونکہ صرف کھمبوں سے بجلی کی تاریں فراہم کرنا ہوں گی باقی کام تو پہلے ہی ہوچکا ہگا۔
اب بڑے صاحب کو جلد بازی ہے کیوں کہ اس وقت بحریہ ٹاﺅن کو فوری طور پر بجلی کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اس کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں،اورلوگ اب رہائش اختیار کرچکے ہیں۔ بڑے صاحب کا چونکہ ملک ریاض سے بہت گہرا یارانہ ہے اس لیے ملک ریاض مروت میں بھی ان سے ناراض نہیں ہورہے مگر وہ ان پر زور دے رہے ہیں کہ فوری طور پر بجلی فراہم کی جائے اور اس بجلی گھر کو فوری چلانے کے لیے گیس کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت سندھ جل بن مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہے، اس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو جب بڑے صاحب نے” ناتجربہ کار“ کا طعنہ دیا اور کہا کہ پہلے آئی جی سندھ پولیس کے تبادلہ کا معاملہ بھی حل نہ کرسکے اب سوئی گیس کی فراہمی کا بھی معاملہ ہینڈل نہیں کرپارہے ہیں۔ اس طیش دلانے والے جملوں پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ ایک دھواں دار تقریر کر ڈالی جس میں انہوں نے اپنے رتبے‘ آئین اور سیاسی حالات کا بھی خیال نہیں کیا۔ اگر وہ 37 گوٹھوں اور شہروں کو گیس فراہم کرنے کے معاملے پر اتنے طیش میں آتے تو ان کی واہ واہ ہوجاتی۔ مگر انہوں نے 37 منصوبوں کا ذکر بھی نہیں کیا اور جوش خطابت میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرگئے کہ خود پارٹی قیادت اور بڑے صاحب کو بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی،اب تیر خطا ہوگیا ہے کیونکہ وزیرا علیٰ کے جوش خطابت کے بعد وفاقی حکومت نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے کہا ہے کہ مروجہ قانون کے تحت ہی نوری آباد پاور پلانٹ کے لیے گیس فراہم کی جائے اور خلاف ضابطہ کسی کو بھی گیس کنکشن نہ دیا جائے اور اس ضمن میں کسی کا دباﺅ بھی قبول نہ کیا جائے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے وہ حکومت سندھ کے خلاف ایک وائٹ پیپر کی حیثیت رکھتا ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی کا موقف ہے کہ جو بھی ادارہ تمام قانونی ضروریات مکمل کرے گا، اس کو ڈیمانڈ نوٹ دیا جائے گا ،ڈیمانڈ نوٹ بینک میں جمع کرواکر اس کی کاپی سوئی سدرن گیس کو دے گا تو اس کو فوری طور پر گیس کنکشن فراہم کیا جائے گا ۔یہ لوازمات اومنی گروپ کے پاور پلانٹ نے پوری نہیں کیں لیکن بڑے صاحب فوری طور پر گیس کنکشن چاہتے ہیں، اس لیے وزیراعلیٰ سندھ کمر کس کر میدان میں اترے لیکن وہ سوئی سدرن کو پچھاڑنے میں ناکام رہے ہیں۔