شمالی کوریا - امریکا کشیدگی‘دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر۔۔!!
شیئر کریں
شام پر امریکی حملے اور شمالی کوریا کو دھمکی کے تناظر میں گزشتہ روزگوگل پر ”تیسری عالمی جنگ“ ٹاپ سرچ رہا، شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور ایٹمی تجربے کاامکان
شمالی کوریا نے اپنے بانی قائد کی 105ویں سالگرہ پر منعقدہ پریڈ میں پہلی بار بیلسٹک میزائل کی نمائش کی جسمیں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت بھی ہے
ابن عماد بن عزیز
شام پر امریکا کا حملہ، افغانستان پر سب سے بڑا غیر ایٹمی بم داغنے اور شمالی کوریا پر امریکا کے حملے کی تیاری،چین کی امریکا کو دھمکی اور شمالی کورین بارڈر پر فوج کی تعیناتی، ایران اور روس کی امریکا کو دھمکی،اپنے گرد تنگ ہوتے گھیرے کے باوجود شمالی کوریا کا اپنے موقف پر ڈٹے رہنا اور مزید کئی ایسے اشارے ہیں جو عنقریب دنیا پر تیسری عالمی جنگ مسلط ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روزگوگل پر ”تیسری عالمی جنگ“ ٹاپ سرچ رہا۔ تیسری عالمی جنگ کے خدشات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ دنیا میں لوگوں کی اکثریت اس حوالے سے متفکر نظر آ رہی ہے۔
گوگل ڈیٹا کے مطابق لوگوں نے 2004ءسے گوگل پر”تیسری عالمی جنگ“کے موضوع کو زیادہ سرچ کرنا شروع کیا جو اب بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔اس کے علاوہ ایٹمی جنگ،ٹرمپ واراور شام کی جنگ کے موضوعات بھی سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موضوعات میں سرفہرست ہیں اور ان کی تلاش میں بھی اب ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ان موضوعات کی تلاش میں اضافہ شام پر امریکی حملے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے اور یہ اضافہ امریکا کی طرف سے اپنا جنگی بیڑہ شمالی کوریا کی طرف روانہ کرنے کے بعد عروج کو پہنچ گیا ہے۔تازہ خبروں کے مطابق شمالی کوریا نے امریکا کو تنبیہ کی ہے کہ خطے میں کسی قسم کے اشتعال انگیز اقدام نہ کرے کیونکہ ‘ہم جواب میں جوہری حملوں کے لیے تیار ہیں’۔شمالی کوریا کی جانب سے یہ بیان اس وقت آیا ہے جب ملک کے بانی صدر کم ال سنگ کی 105 ویں یوم پیدائش کی تقریبات جاری ہیں۔اس موقع پر پیانگ یانگ میں ہفتے کو فوجیوںنے ٹینک واسلحے سمیت پریڈ کی اورجنگی ہتھیاروںکی نمائش کی۔یہ بیان اس وقت آیا ہے جب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان ایک اور ایٹمی تجربے کا حکم دے سکتے ہیں۔شمالی کوریا کے عسکری حکام نے بیان میں کہا ہے ‘ہم جنگ کا جواب جنگ سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہم پر نیوکلیئر حملہ کیا گیا تو ہم اپنے انداز سے ایٹمی حملہ کر کے جواب دینے کو تیار ہیں۔’شمالی کوریا نے ہفتے کو ہونے والی پریڈ میں پہلی بار بیلسٹک میزائل کی نمائش کی جو آبدوز سے لانچ کیے جانے والے میزائل سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس میزائل میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت بھی ہے۔
شمالی کوریا نے امریکی بحری بیڑے کی کوریائی خطے میں تعیناتی پر کہا ہے کہ وہ طاقتور ہتھیاروں کی مدد سے اپنا دفاع کرے گا۔شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے کے مطابق ملک کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی بحری بیڑے کی تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’چڑھائی کرنے کے لیے لاپرواہی سے کیے گئے اقدامات سنگین مرحلے میں پہنچ چکے ہیں‘۔وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق’ہم امریکا کو اس کے اشتعال انگیز اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تباہ کن نتائج پر مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیں گے اور کوریا امریکا کی خواہش پر مبنی کسی بھی جنگی ماحول کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ پیر کوکوریائی خطے کےلیے چین کے ایلچی کی جنونی کوریا کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی۔کوریائی حکام نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ دونوں ممالک نے شمالی کوریا کی جانب سے مزید میزائل تجربات کرنے کی صورت میں اس کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر خدشات میں اضافے کے باعث امریکی فوج نے بحریہ کے سٹرائیک گروپ کو کوریائی خطے کے جانب پیش رفت کا حکم جاری کیا تھا۔امریکی پیسفک کمانڈ نے اس تعیناتی کو خطے میں تیار رہنے کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری اسلحے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا تنہا ہی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔امریکی پیسفک کمانڈ کے ترجمان ڈیو بنہیم نے کہا تھا کہ ‘اپنے لاپرواہی، غیر ذمہ دارانہ اور میزائل کے تجربوں سے غیر مستحکم کرنے اور جوہری اسلحے کی صلاحیت کی خواہشات کے سبب خطے میں سب سے بڑا خطرہ شمالی کوریا ہے۔اس سٹرائیک گروپ میں نیمٹز درجے کا طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس کارل ونسن کے علاوہ دو گائیڈڈ میزائل شکن اور ایک گائیڈڈ میزائل لانچ کرنے والا جہاز شامل ہے۔حملے کی زبردست قوت رکھنے والے اس جنگی بیڑے میں بیلسٹک میزائل کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔اس بیڑے کو پہلے آسٹریلیا پر لنگر انداز ہونا تھا لیکن پھر سنگاپور سے اس کا رخ مغربی بحرالکاہل کی جانب موڑ دیا گیا۔ جہاں اس نے حال ہی میں جنوبی کوریا کی بحریہ کے ساتھ جنگی مشق کی ہے۔شمالی کوریا نے حال ہی میں کئی جوہری تجربات کیے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ جوہری اسلحہ بنا سکتا جس میں امریکا تک مار کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔گذشتہ بدھ کو شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سنپو سے جاپان کے سمندر میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔اس تجربے کی جاپان اور جنوبی کوریا نے مذمت کی تھی اور یہ تجربہ چینی صدر شی جن پنگ کی امریکی صدر سے ملاقات کے ایک روز قبل ہوا تھا۔اس کے بعد دونوں رہنماو¿ں نے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر لگام لگانے کے طریقے پر بات کی تھی۔چین کو اپنے تاریخی حلیف پیونگ یانگ کو تنہا کرنے میں ہچکچاہٹ ہے کیونکہ اسے اس بات کا خوف ہے کہ اگر شمالی کوریا کا سقوط ہوتا ہے تو چین میں پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہو جائے گا اور امریکی فوج اس کے دروازے پر آ بیٹھے گی۔
اس سے قبل چین نے خبردار کیا تھا کہ شمالی کوریا کے حوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ‘کسی بھی وقت لڑائی چھڑ سکتی ہے۔’چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ جیت کسی کی بھی نہ ہو۔چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘ہم فریقین یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو اکسانے اور دھمکانے سے اجتناب کریں، چاہے ایسا الفاظ سے کیا جا رہا ہو یا اقدامات سے اور صورتحال کو ایسا نہ ہونے دیں جسے سنبھالنا مشکل ہو جائے۔چین کی تشویش امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جمعرات کو کیے گئے اس تبصرے سے اور بھی بڑھ گئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘شمالی کوریا کے مسئلے کو دیکھ لیا جائے گا۔شمالی کوریا کے حوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے اور کسی بھی وقت لڑائی چھڑ سکتی ہے۔
چین وہ واحد ملک ہے جو اس تنازعہ میںشمالی کوریا کی حمایت کررہاہےچین نے خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا کے حوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ’کسی بھی وقت لڑائی چھڑ سکتی ہے۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ جیت کسی کی بھی نہ ہو۔چینی وزیر خارجہ وانگ یی ے کہا کہ، ’ہم فریقین یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو اکسانے اور دھمکانے سے اجتناب کریں، چاہے ایسا الفاظ سے کیا جا رہا ہو یا اقدامات سے اور صورتحال کو ایسا نہ ہونے دیں جسے سنبھالنا مشکل ہو جائے۔چین اس بات سے فکر مند ہے کہ اگر جنگ سے شمالی کوریا میں کم جونگ-ان کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو اس سے چین کی اپنی سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔اسے یہ بھی تشویش ہے کہ شمالی کوریا کے اقتدار گرنے سے ایک بفر زون ختم ہو جائے گا جو اس کے اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک کھائی کا کام کرتا ہے جہاں امریکا نے اپنے فوجی اڈے بنا رکھے ہیں۔چین انہی وجوہات کی وجہ سے شمالی کوریا کو زیادہ کچھ کہنے سے گریز کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں چین کے اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات میں مایوسی بڑھی ہے۔اس نے شمالی کوریا سے کوئلے کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے جبکہ چین کی سرکاری نشریاتی سروس سی سی ٹی وی نے کہا ہے کہ چین 17 اپریل سے بیجنگ اور پیانگ یانگ کے درمیان ایئر چائنا کی براہ راست سروس ملتوی کر رہا ہے۔
چینی وزیر خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکا میں شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو¿ کے حوالے سے تشویش بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے جزیرہ نما کوریا کے پاس اپنا ایک بحری جنگی جہاز تعینات کر دیا ہے۔امریکی صدر نے حالیہ دنوں میں فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے۔چین کی تشویش امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جمعرات کو کیے گئے اس تبصرے سے اور بھی بڑھ گئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’شمالی کوریا کے مسئلے کو دیکھ لیا جائے گا۔ٹرمپ نے کہا، ’اگر چین کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ بہت اچھا ہو گا۔ اگر نہیں کرتا، تو ہم ان کے بغیر اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔
شمالی کوریا کی فوج نے اگلے دن اس کے جواب میں کہا کہ وہ کسی امریکی حرکت کو ’بے رحمی سے ناکام کر دے گا۔امریکی صدر نے حالیہ دنوں میں فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے پہلے شام میں ایک مشتبہ کیمیائی حملے کے بدلے میں شام میں میزائل حملوں کا حکم دیا اور اس کے بعد امریکی فوج نے افغانستان میں نام نہاد دولتِ اسامیہ کے ٹھکانوں پر ایک بڑا بم گرایا۔امریکا کو فکر ہے کہ شمالی کوریا ایسی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے جس کی مدد سے وہ امریکا تک جوہری ہتھیاروں سے حملے کر سکے۔
صدر ٹرمپ چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ گذشتہ ہفتے فلوریڈا میں ہونے والے اجلاس کے بعد سے مسلسل فون پر رابطے میں ہیں اور خبر رساں ادارے رویٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں لگانے کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔