میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نظریہ پاکستان کیا ہے ؟

نظریہ پاکستان کیا ہے ؟

منتظم
جمعه, ۱۶ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

محمد فہیم شاکر
پاکستان کا عالیشان وجود قائد اعظم محمد علی جناح کی محنت شاقہ کی بدولت ہی ممکن ہوا ، اور علامہ محمد اقبال کے ایمانی شعری کاوشوں نے اپنا رنگ دکھایا اور انہوں نے بر صغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی قوم کو احساس تفاخر اور خودی کی بیداری کا پیغام دے کر انہیں اوجِ ثریا تک پہنچانے کے لیے اپنا خون جگر دیا۔پاکستان آج اپنے وجود کے 71سال مکمل کر رہا ہے اور ان شا ء اللہ محمد علی جناح کے بقول تا قیامت زندہ رہے گا لیکن قائد اعظم کی وفات نے اپنے پیچھے بہت سے گھمبیر مسائل چھوڑ دئے جن سے پاکستان ابھی تک پوری طرح نبرد آزما ہے ۔ پاکستان عصر حاضر میں جن خوفناک اور اندوہناک سیاسی اور قومی منجدھار سے ہمکنار ہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی امداد کی ضرورت ہے اور قیام پاکستان کے جذبات کو مکمل طور پر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیںکیا کرتاانہی اہم ترین مقاصد کے حصول کے لیے نظریہ پاکستان کو دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، اکثر و بیشتر دانشوران نظریہ پاکستان کی تفہیم میں ڈنڈی مار جاتے ہیں جو کسی بھی طرح قومی ترقی اور عروج کا باعث نہیں بنتا۔

ایک طویل عرصے تک قومی اور علمی سطح پر جملہ مفکرین اس پریشانی میں مبتلا رہے کہ نظریہ پاکستان کیا ہے ؟اس کے درست و اصل مفاہیم کیا ہیں؟ تحریک پاکستان کے تاریخی اور سیاسی احوال کی روشنی میں نظریہ پاکستان کس طرح معرضِ وجود میں آیا اس کے اصل منابع و مصادر کیا ہیں ؟قومی اور غیر قومی اخبارات و رسائل میں نظریہ پاکستان کے باب میں تشکیک اور غلط فہمیاں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔جس کا لازمی نتیجہ نوجوان نسل کے ذہنوں کی پراگندہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اسی نوجوان نسل نے پاکستان کو ترقی کی راہوں پر ڈالنا تھا لیکن اب یہی نوجوان نسل جو نظریہ پاکستان کے حقیقی مطالب و مفاہیم سے نا ٓشنا ہے پاکستان کی بنیاد سے ہی نفرت کرتا ہے کیونکہ آئے روز اسے یہی کچھ میڈیا میں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے دوسری طرف اچھے خاصے صاحبان دانش نے نظریہ پاکستان کے مطالب کو گڈ مڈ کر کے رکھ دیا اور قائد اعظم ، علامہ اقبال ، تحریک پاکستان اورتخلیق پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف اپنے بغض کاظہار کرتے ہیں جس کے باعث بالخصوص نظریہ پاکستان کے بنیادی اور اصولی تقاضوں کو کاری ضرب لگتی رہی ان ناپسندیدہ نظریات کے نسل نو پرانتہائی زہریلے اثرات مرتب ہوئے۔وہ نسل نو جس نے نہ تو پاکستان بنتے دیکھا نہ ہی ہندو قوم کے ساتھ پالا پڑا ، جنہیں ان کے بزرگوںنے بھی جملہ زندگی کی مصروفیات سے وقت نکال کر پاکستان کے اسباب و علل سے آگاہ نہیںکیا، تعلیمی اداروں میں جو علم پہنچایا جا تاہے ، چند ایک قومی اداروں کے سوا یا چند ایک شخصیات کے علاوہ خالص پاکستانیت کے جذبات و احساسات کا علم باہم نہیں پہنچایا گیا ۔

عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں جتنے علوم ،خواہ وہ سائنسی ہوں، معاشرتی ہوں یا اقتصادی، نظریہ پاکستان اورتخلیق پاکستان کا علم ان سب میں سے مفقود ہے۔وقت گزاری کے لیے میٹرک ، ایف اے ، بی اے، میں مطالعہ پاکستان کولازمی مضمون کے طور پر منظور تو کیا گیا ، لیکن اس کا حشر جو ہمارے تعلیمی اداروں میں ہوا یا ہو رہا ہے وہ یوں ہے کہ مطالعہ پاکستان کو کوئی اہمیت نہ دی گئی ، اساتذہ کرام کی اس ضمن میں تربیت کی گئی نہ ہی مطالعہ پاکستان کو ایک مخصوص جذبے ، اور لگن کے ساتھ پڑھایا گیا۔چناچہ تخلیق پاکستان کے بنیادی عناصر ہنوز تشنہ تکمیل ہیں ، اور یہ قومی سطح پر ابھی تک لمحہ فکریہ ہے۔علم و عقل میں اگر تضاد رہے گاتو ظاہر ہے اس نوعِ انسانی میں تخریب کا باعث بنے گا اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔نظریہ پاکستان کا آغاز گو کہ ہندوستان میںہوا لیکن یہ نظریہ ابتدائے آفرینش سے اپنی تمام تر جلوہ آرائیوںسے موجود رہا ۔ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالی نے اپنے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمیں میں اپنا جانشین بنانا چاہتا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ انسان تو زمین میں فساد کرے گا ، اللہ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیںجانتے۔پھر اللہ تعالی نے انسان کو تخلیق فرمایااور فرشتوںکو حکم دیا کہ اس کو سجدہ کرو تو ابلیس نے انکار کر دیا اور راندہ درگاہ قرار دیا گیا چناچہ تخلیق آدم کے ساتھ ہی دو گروہ اور دو معاشرے تخلیق ہوگئے ایک اطاعت گزار اور دوسرا انکاری۔

نبی نوعِ انسانی خواہ کتنی ہی نسلِ انسانی میں تقسیم ہوجائے ، خواہوہ تفریق خون کی بناء پر ہو یا زبان کی اسا پر ، یہ تفریق باطل ہو گی ، حقائق پر مبنی تفریق اورتقسیم ، فکر و تدبر اور امتیازِ فکر و نظر ایک ازلی ، ابدی اور مطلق نظریے پر قائم ہوگا اور یہی نظریہ جسے آئیڈیالوجی کہتے معرض وجود میں آیا۔اسلامی نقطہ نظری سے نظریہ پاکستان کا آغاز ، تشکیل و ترویج برصغیر میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشارو افتراق اور زوال و انحطاط کا سامنا کرنا پڑا اور ہندووںکی اصل فطرت کا سامنا کرنا پڑا، ان کی گھناونی سازشوں اور مظالم کا مقابلہ کرنا پڑا ۔بالخصوص 1857کے بعد تو حالات ناقابل بیان ہیں ۔تو مسلمانوں کو یہ خیال جاگزیں ہوا کہ ہم ہندووں کے ساتھ ہر گز اکھٹے نہیںرہ سکتے، یہی خیال ایک نظریہ بن کر اٹل حقیقت بن کر کھڑا ہوگیا۔اسی نظریے کی قوت کا اندازہ کیجئے کہ ہم نے بغیر کسی جنگ کے ذہنی طاقت کے بل بوتے پہ پاکستان حاصل کرلیا اور ہم نے ثابت کر دکھایا کہ ہم سچے تھے اور ہمارا مقصد بھی سچا تھا پاکستان اب ایک اٹل حقیقت ہے اسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ایسا پاکستان جس کی دیواریںکچے دھاگے سے نہیں بلکہ لا الہ الا اللہ کے اسلامی اور قرآنی نظریے اور ایمان پر قائم ہیں اور تا قیامت قائم رہیںگے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے بر عظیم پاک و ہند کی تاریخ کوایک تاریخ ساز مختصر جملے میں یوں بیان کیا تھا کہ پاکستان صدیوں سے قائم ہے اور صدیوں تک قائم رہے گا اور جس روز پہلے مسلمان نے اس سرزمین پر قدم رکھا تحٓ پاکستان اسی روز معرض وجود میںآگیا تھا ۔اب اگر قائد اعظم ؒ کے اس تاریخی جملے کو تاریخ کی روشنی میں پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ برعظیم میں اسلام کی روشنی پھیلانے کاسہرا ان مسلمانوں کے سر ہے جنہوں نے تجارت کی غرض سے اس سر زمین پر قدم رکھا، ظاہر ہے ان مٹھی بھر مسلمان توجروں اور ان کے اہل خانہ ک ے نام عبداللہ ، عبدالرحمن ، محمد علی ہی ہوں گے ، نہ کہ ششی کپور، سکسینہ ،، چندت کانت وغیرہ پہلے گروپ کے نام اپنی نسبت ایک خاص سمت میں سفر کر رہے ہیں جبکہ دوسرا گروپ کسی دوسری طرف ،صاف نظر آرہا ہے کہ ان دونوں گروپوں کا مطمح نظر اور زاویہ نگاہ و سوچ اور زندگی کے تصور میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے پہلا گروپ اپنی نسبت اللہ رب العالمین سے جوڑ رہا ہے جس کی اپنی ایک تہذیب و ثقافت ہے جبکہ دوسرا بتوں کی طرف ۔ اپنی نسبت کر رہا ہے جس کی اپنی ایک ثقافت ہے تو یہ دونوں ایک قوم کیسے ہو گئے یہی فرق بعد ازاں پاکستان کی بنیاد بنا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں