میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عورت کی حکمرانی پر ایک پرانی بحث اور مریم نواز!

عورت کی حکمرانی پر ایک پرانی بحث اور مریم نواز!

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۶ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

انتخابات 2024 تمام ہوئے، مگر کہاں؟ نواز شریف کی خاندانی جماعت مسلم لیگ نون اصل نتائج میں بیس پچیس نشستیں لینے میں ہی کامیاب ہو سکی۔ نون لیگ کے پاس انتخابی اعداد وشمار 8 فروری کے نہیں، 9 فروری کے ”کمالات” کے ہیں۔ نواز شریف رسوا کن حالات سے دوچار ہونے کے باوجود گوشہ گمنامی میں جانے کو تیار نہیں۔ مقتدر حلقوں نے عوام میں اپنے ”احترام” کو داؤ پر لگا کرجس طرح نوازشریف اور راندہ مخلوق کو جس نوع کی حمایت دی ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مگر وقت کے غیر معمولی بہاؤ نے غیر معمولی حمایت و معاونت کو بھی ایسے بہا دیا کہ نوازشریف اپنے بھائی کو وزیراعظم نامزد کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر عام ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی وزیراعظم شہباز شریف کو بنانے کا منصوبہ تھا۔ ہرگز نہیں۔ یہ منصوبہ نہیں شہباز شریف کی من پسند صحافیوں اور مخصوص حلقوں کے ساتھ ایک طرح کی لابنگ تھی۔ نون لیگ کے کمزور انتخابی نتائج نے شہباز شریف کے اس کھیل کو عریاں ہونے سے محفوظ رکھا۔ وقت کے جبر نے نواز شریف کو پیچھے ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ کیا سامنے کی بات نہیں کہ نون لیگ کا انتخابی نعرہ تھا: پاکستان کو نواز دو”؟ کیا دو روز پہلے اخبار ات کے فل سائز اشتہار میں سرخی یہ نہ تھی کہ ”نواز شریف وزیراعظم، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا”۔ مگر نواز شریف نے عوام کا فیصلہ سنا، نہ وقت کی تنبیہ پر دھیان دیا۔ جلوت میں نشانۂ عبرت بننے سے بہتر ہے خلوت میں اللہ اللہ کیا جائے!! مگر نوازشریف اور شریف خاندان کا فیصلہ ہے کہ جلوت میں نشانۂ عبرت بننے تک باز نہ آیا جائے۔ میاں صاحب نے سیاست کو تاحال الوداع نہیں کہا۔ بس انگور کھٹے دیکھ کر شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جمع کرنے سے بھی کام نہ بن سکا اور طاقت ور حلقوں کی غیر معمولی حمایت و معاونت بھی راس نہ آسکی، بمشکل تمام پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اصل نتائج میں محض 50 سے 60 نشستیں پانے والی نون لیگ 9 فروری کے انتخابی ہیر پھیر سے اکثریتی جماعت کا دھوکا پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ اب وہاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز وزیراعلیٰ نامزد کر دی گئیں۔

”بھَلے” یا ”بھُلائے گئے” وقتوں میں نوازشریف نے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو کے متعلق یہ مذہبی سوال پیدا کر دیا تھا کہ کیا اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز ہے؟ وارثانِ منبر و محراب اور اصحاب ِجبہ ودستار سے اس پر فتوے دلائے گئے۔ کتابیں لکھوائی گئیں۔ مرحوم محمد صلاح الدین کی ایک کتاب ”عورت کی سربراہی آدم تا ایں دم” بھی اکثر اسی تناظر میں زیر بحث رہتی ہے، خوش گمانی یہی ہے کہ شہید نے یہ کتاب کسی کے کہنے پر نہ لکھی ہو گی۔ صلاح الدین صاحب کا موقف انتہائی شدت پر مبنی تھا یہاں تک کہ للہیت کے نشے میں رہنے والے عظیم مفکر مرحوم ڈاکٹر حمید اللہ کے ساتھ اُن کا تحریری تبادلۂ خیال بھی ہوا، جو حالت ِ اضطرار کے علاوہ آج کی دنیا کے مخصوص حالات میں اس طرح کی حکمرانی کے قائل تھے۔ محمد صلاح الدین مرحوم نے اُن کے موقف کی رعایت سے بھی عورت کی حکمرانی کی کوئی لذت کشید نہ کرنے دی۔ عورت کی حکمرانی کا سوال تو اب متعلق نہیں رہا کہ اب نمائندگی کی بحثیں عورت کی پزیرائی کے نقطہ نظر سے کی جاتی ہیں اور مغربی جمہوریتیں عورتوں کے شمولیتی کردار سے اپنی توقیر کے اعداد وشمار متعین کراتی ہیں۔ اب یہ ایک ذہنی پسماندگی کی دلیل بنتی ہے کہ عورت کی حکمرانی کے متعلق کوئی بحث چھیڑی جائے چنانچہ مریم نواز کی حکمرانی پر کوئی مذہبی سوال زیر بحث بھی نہیں ۔ مگر یہاں قانونِ قدرت کی ایک جھلک ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔
نوازشریف نے اپنے عرصۂ سیاست میں دوسروں کے لیے جو جو بھی فتنے اُٹھائے اُس کی حشر سامانیاں اب اُن کی سیاست میں بھی ہنگامے اُٹھا رہی ہیں۔ غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ سب اُن کی طرف کسی قانون ِ قدرت کے تحت پلٹایا جا رہا ہے۔ اُن کی دائیں بازو کی سیاست ختم ہوئی۔ اُنہوں نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا۔ کشمیر کاز کے حوالے سے اُن پر الزامات عائد کیے گئے۔ یہ سب الزامات بعد ازاں نواز شریف پر بھی عائد ہوئے۔ ڈان لیکس کو تو ایک طرف رکھیں، اس سے پہلے اور بعد بھارتی اداکاراؤں سے لے کر سیاست دانوں تک اُن کی دوستیاں اور دلچسپیاں سامنے آئیں۔ کم بارکر کی کتاب کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے! اُن کے خاندان کو ایک روایتی گھرانے کے طور پر پیش کیا گیا۔ اُن کے باوضو رہنے کے افسانے گھڑے گئے، یہاں تک کہ اُن کے گھر کے ہر فرد کا تاثر ایک روایتی مشرقی آداب کے حامل کے طور پر اُبھارا گیا۔ مگر یہ سب فریب ثابت ہوا ۔ جتنے اسکینڈلز اس خاندان کے سامنے آئے اُتنے تو لبرل سمیت مختلف الزامات کا شکار ہونے والے بھٹو خاندان کے بھی شمار نہیں کیے جا سکے۔ یہ خاندان جس طرح عوامی حقارت و نفرت کا نشانہ بن رہا ہے، اُس کا درست تجزیہ تاحال کسی بھی سطح پر نہیں ہو رہا۔ اس ضمن میں یہ اہم پہلو بھی نظرانداز ہو رہا ہے کہ اس خاندان کے خلاف عوامی نفرت سمیت جتنے بھی دیگر محرکات ہیں اُس کے پیچھے قانون قدرت کی ایک حرکت موجود ہے۔ افسوس اس آواز کو گوش مدہوش سننے کو تیار نہیں۔
ذرا 1988ء کے ماہ و سال کو یاد کیجیے! کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وقت گھوم کر کہاں آ رکے گا؟ مقتدر حلقوں کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988ء کو وزیراعظم بن گئیں۔ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم اور اباجی میاں شریف کے پرتکلف ناشتوں سے نواز شریف اُبھارے جا رہے تھے۔ دائیں بازو کے کچھ سربرآوردہ صحافی جو آخری تجزیے میں راتب خور نکلے، میاں شریف کے دسترخوان کے لقموں سے نوازشریف کی چھوی بنانے لگے۔ تب وزیراعلیٰ نوازشریف تھے۔ دور دور تک کوئی امکان نہ تھا کہ شریف خاندان کی کوئی بیٹی سیاست میں آئے گی۔ مریم نواز کی تب عمر پندرہ برس تھی۔ وہ 28 اکتوبر 1973ء کو پیدا ہوئی۔ تب سیاسی اُفق پر طلوع ہونے کو شہباز شریف مچل رہے تھے، مگر میاں شریف اُنہیں کاروبار پر لگائے رکھنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ سیاسی کاروبار میں اصل سرمایہ کاری نواز شریف کو انوسٹ کرکے کرچکے تھے، تاجر سرمایہ لگا کر سرمایہ پانے کی امید رکھتا ہے۔ ابا جی نوازشریف کے سرمائے کو تحفظ دینے اور اُبھارنے کے لیے جنرل جیلانی کے بیٹے کو ایک فیکٹری میں شیئر بھی دے چکے تھے۔ شہباز شریف نفع سمیٹنے پر مامور تھے۔ سارے کھیل کاروباری تھے۔ جنہیں نظریات کے میدان میں نفع نقصان کی نفسیات کے ساتھ اس طرح کھیلا جانا تھا کہ اس پر حق و باطل اور خیروشر کے مغالطے لگے رہیں۔ اس کھیل میں ابن خلدون سے لے کر ابن رشد تک، سقراط سے لے کر برٹرینڈرسل تک جس کے ہاتھ جو دانشور، فلسفی لگا، نواز شریف کی سیاست کے اُتار چڑھاؤ اور الٹی سیدھی قلابازوں کے جواز کے طور پر کھپایا جاتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب نوازشریف کا پورا تکیہ دائیں بازو کے حریص دانشوروں کے ٹولے پر تھا۔ بائیں بازو کے اکا دکا دانشور جنہیں یہ اندازا ہو چکا تھا کہ بائیں بازو کی فکر کا فروغ بھی سرمائے کی حرکت پر منحصر ہے، نوازشریف کے گرد منڈلانے لگے۔ بازاری سیاست کے لیے مذہبی فکر کا استعمال کیا جانے لگا۔ کچھ لوگوں سے اب بھی خوش گمانی ہے۔ مگر اکثر و بیشتر کے لیے یہ محض ایک دھندا تھا۔ شریف خاندان کی طرف سے تب بے نظیر بھٹو کے خلاف سب سے بڑا محاذ یہی گرم کیا گیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔ ایک نہیں تب متعدد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ 1988 کے بعد کئی برس تک یہ مسئلہ پاکستانی سیاست میں زندہ رکھا گیا اور مذہبی ذہنوں کو اس حوالے سے مخصوص عصبیت کا اسیر رکھا گیا۔ جس کا براہِ راست فائدہ نواز شریف کے اقتدار کو پہنچتا رہا۔ یا للعجب کسی کو یاد نہیں رہا۔ اب اس مذہبی بحث کو بھی حالت ِ اضطرار کے چولہے پر جلنے دیجیے! کیونکہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ہونگیں۔ اور پاکستان میں نوازشریف کے ہر اقدام کو جواز دینے سے زیادہ اضطراری حالت کیا ہوگی؟ انتخابات 2024 نے قانون قدرت کی ایک جھلک دکھائی ہے اور شریف خاندان کو اپنے بنائے گئے آئینوں میں اُن کے اپنے ہی چہرے دکھا ئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں