میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹی ٹی پی ،داعش،بلوچ گرو پ پاکستان کیخلاف استعمال ہورہے ہیں،وزیراعظم

ٹی ٹی پی ،داعش،بلوچ گرو پ پاکستان کیخلاف استعمال ہورہے ہیں،وزیراعظم

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۶ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

افغانستان سے 3 گروپ دہشتگردی میں ملوث

22 کروڑ آبادی کسی بھی ملک کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، حکومت ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نہ دینے والوں تک پہنچے گی،تقریب سے خطاب
افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، پاکستان تنہا ایسا نہیں کرسکتا،فرانسیسی جریدے کو انٹرویو

اسلام آباد(بیورورپورٹ)وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نہ دینے والوں تک پہنچے گی، دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں غربت میں کمی آئی۔ ۔پاکستان کے پہلے انسٹنٹ پے سسٹم راست کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 22 کروڑ آبادی کسی بھی ملک کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، اگر انہیں آپ اپنی معیشت میں شامل کرلیں تو یہ ہماری بڑی طاقت ثابت ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ ڈیجیٹل پاکستان اس سفر کا نام ہے جس کے تحت ہم لوگوں کو معیشت میں شامل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کو بینک سے خوف آتا ہے، اس لیے یہ عام شہری کی سہولت کے لیے بنایا گیا، ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ کہ لوگوں کو نیچے سے اوپر اٹھایا جائے۔ ا نہوں نے کہا کہ جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت آئی تھی تو خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مبتلا تھا، یو این ڈی پی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہاں سب سے تیزی سے غربت ختم ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت کے پانچ سال مکمل ہوں گے تو میں یہ دیکھوں گا کہ ہمارے دور میں غربت ختم ہوئی یا نہیں ہوئی، میں اسے کامیابی سمجھوں کہ ہم نے لوگوں کو غربت سے نکال دیا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں غربت میں کمی آئی ہے، اس دوران پاکستان میں اس میں کمی آئی ہے، یہ بھی ایک کامیابی ہے راست کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے آسانی ہوگی، کیونکہ انہیں بینک جانے کا وقت نہیں ، اس سے لوگ رسمی معیشت میں شامل ہوں گے، اور ہمیں اپنا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو اوپر لے جانے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے 22 کروڑ لوگوں میں صرف 2 کروڑ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے ان لوگوں کے پاس پہنچ رہے ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے اور میں ان لوگوں کو خبر دار کرنا چاہوں گا کہ ہم آپ کے پاس پہنچنے والے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان لوگوں کا ڈیٹا بہت تیزی سے آرہا ہے۔وزیر اعظم نے روشن پاکستان اور راست جیسے پروگرامز کی کامیابی پر گورنر سٹیٹ بینک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مانیٹرنگ کے لیے آپ کے پاس سیل ہونا چاہیے۔
عمران خان /خطاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد (بیورورپورٹ)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تاہم پاکستان تنہا ایسا نہیں کرسکتا، ہم خطے کے تما م ممالک کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں تاہم افغانستان کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے جلد یا بدیر انہیں افغانستان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ جتنا افغانستان میں استحکام ہو گا اتنا ہی بین الاقوامی دہشت گردتنظیموں کے لئے افغانستان میں پنپنے کا امکان کم ہو گا ۔ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، ہم مزید پناہ گزینوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ،ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی جریدے کے صحافی لی فگاروکے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کو 40 سال چیلنجز کا سامنا رہا اور ہماری خواہش ہے خطے کے ممالک افغانستان کے معاملے پر اپنا کردار ادا کریں، 4 کروڑ عوام کا مستقبل بچانا ہے تو افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسائیہ ممالک مل کر کوئی اقدام کریں ، اگر پاکستان، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے کوئی تنہا اقدام اٹھاتا ہے تواس کا ہم پر بہت زیادہ بین الاقوامی دبائو آجائے گا۔ ہم پہلے معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھرا ہونے کی کوشش کررہے ہیں، جب میری حکومت آئی تو ملک دیوالیہ تھا اورہمارے پاس واجبات اداکرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اس وقت ہماری ساری توجہ اپنی معیشت پر ہے، ہماری معیشت اسی صورت بہتر ہو گی جب ہمارے دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے۔ اس لئے آخری چیز جو ہم نہیں چاہیں گے وہ عالمی تنہائی ہے، یعنی کہ ہم واحد ملک ہوں جو طالبان کو تسلیم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم چار کروڑ افغانوں کی فلاح وبہبود کے خواہاں ہیں توافغان حکومت کو جلد یا بدیر تسلم کرنا ہے، کیونکہ اس وقت کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ جب پچھلی دفعہ طالبان حکومت میں آئے تھے تواس وقت شمالی اتحاد کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھاتاہم اس وقت افغانستان میں کوئی تصادم نہیں ہے جو کہ40سال بعد یہ پہلا موقع ہے ملک میں کوئی تصاد م نہیںہے، سوائے چھوٹی موٹی دہشت گرد تنظیوں کے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنا افغانستان میں استحکام ہو گا اتنا ہی بین الاقوامی دہشت گردتنظیموں کے لئے افغانستان میں پنپنے کا امکان کم ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تاہم پاکستان تنہا ایسا نہیں کرسکتا، ہم خطے کے تما م ممالک کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں تاہم افغانستان کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے جلد یا بدیر انہیں افغانستان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ شرائط کیا ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اس بات پر بین الاقوامی اتفاق رائے ہے، ایک یہ کہ جامع حکومت ہونی چاہیئے، دوسرا انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق ، طالبان حکومت نے دونوں کا وعدہ کیا ہے، انہوں نے انسانی حقوق کی بات کی ہے اور انہوں نے جامع حکومت کی بات کی ہے۔ سوال یہ ہے طالبان ایسا کیا کریں کہ جس سے دنیا مطمئن ہو کہ طالبان نے شرائط پوری کردی ہیں، دراصل یہ اس وقت صورت حال ہے اورطالبان اس وقت دونوں شرائط کو تسلم کر چکے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں