آپ کا اعتبار کون کرے
شیئر کریں
سیموئل بیکٹ کا واسطہ عمران خان ایسے لوگوں سے رہا ہوگا، کہا:دنیا میں اشکوں کی تعداد ایک سی رہتی ہے“۔ ڈراما نگار کو یہ فقرہ حکومتوں کی جانب سے انسانوں کی تقدیر اور دکھوں میں کمی نہ لانے کے حوالے سے سوجھا تھا۔ عمران خان کی چال میں بھی اشک وہی بہتے ہیں جو عہد زرداری اور دورِ نوازشریف میں بہتے تھے۔ مہنگائی، بربادی، نامرادی،وہی وعدے، وہی پھندے، وہی ہتھکنڈے۔پھر ہماری ریاضت ِ نیم شبی کی صبح کہاں ہے؟
دریا نے اب اُلٹے سمت بہنا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں دو اہم مگر خطرناک پھلجڑیاں چھوڑیں۔ ملک کا مستقبل 5 سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا۔ عمران خان نے مدت کے ساتھ طرزِ حکمرانی کا مسئلہ بھی دھیمے سُروں میں چھیڑتے ہوئے کہا کہ ”چین کے اندر جو ہوا وہ معجزہ ہے، دنیا کی تاریخ میں اتنی تیزی سے ترقی کہیں نہیں ہوئی اور چین کے اس معجزے کا راز یہی ہے کہ ان کی طویل مدتی منصوبہ بندی ہے“۔ظاہر ہے وہ چین کی جس طویل مدتی منصوبہ بندی کا ذکر کر رہے ہیں وہ براہِ راست طویل مدتی اقتدار کے آمرانہ طرزِ حکمرانی سے جڑا ہے۔ چین کی اپنی تاریخ وتہذیب ہے۔اُ س کی ترقی کی جڑیں بھی گہرے امتحانات کی اُسی تاریخ و تہذیب میں ہیں۔چھ ہزار سال کی تاریخ رکھنے والا چین صدیوں تک ترقی یافتہ قوم اورمشرقی ایشیا کے تہذیبی مرکز کے طور پر دنیا کی تسلیم شدہ حقیقت رہا۔ چین نے اپنے نظمِ مملکت کو اپنی تاریخ و تہذیب کے اسی بطن سے تخلیق کیا۔ جس میں وزرائے اعظم وصدور کے انتخاب کا اپنا طریقہئ کار ہے۔ یہ مغربی جمہوریتوں سے مستعار نظام نہیں۔ نہ اس میں مغربی فلاحی تصورات کی وہ جگالی ہے جو ہمارے وزیراعظم عمران خان اکثر بعض مغربی ممالک میں اسلام کے فلاحی تصورات کی جھلک کے طور پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ مشکل ترین کام وہ اتنی آسانی سے کیسے کرلیتے ہیں؟وزیراعظم کی جانب سے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے پانچ سال ناکافی قرار دینے اور اُسلوب حکمرانی کے لیے چین کی طرف للچائی نگاہوں سے دیکھنے کی اس حالیہ کوشش میں خطرے کی کئی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ دوسری طرف اس میں عمران خان کی ناکامی کا ایک اعتراف بھی موجود ہے۔
عمران خان کی جانب سے اقتدار کی مدت یا نوعیت کی بحث اُن کی ناکام حکومت کے بعد انتہائی ناموزوں لگتی ہے۔ درحقیقت عمران خان نے اپنا نہایت قیمتی وقت ضائع کردیا۔ وہ تین سال میں کچھ بھی فرق ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ نہ نظم حکمرانی میں بہتری لاسکے اور نہ عوام کو کوئی راحت پہنچا سکے۔آج کی ہی بات لیجیے!پیٹرولیم مصنوعات چار سے ساڑھے پانچ روپے فی لیٹر مہنگی کرنے کی تیاری ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ڈھائی ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات میں چھٹی مرتبہ اضافہ ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے تین دن میں تین مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ عمران خان کی یہ خوبی کمال کی ہے، وہ انتہائی بے نیازی سے مہنگائی ہونے دیتے ہیں، پھر انتہائی ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ساتھ میں ایک اعلان بھی کہ مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں قدیم زمانے میں ملا نصیرالدین کیا کرتے تھے۔مگر ملانصیرالدین کی تو باتیں ہی تھیں، اس لیے ہنسی بھی آتی ہے مگر یہاں تو یہ باتیں بھگتنا بھی پڑتی ہیں، چنانچہ عوام کے پاس رونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستا نہیں رہا۔ عمران خان نے حریفوں کو زیر کرنے کا بیکار ہدف سامنے رکھا۔ اقتدار یافت کرنے کے بعد حریفوں کو انتقامی ذہنیت سے نہیں کارکردگی سے زیر کیا جاتا ہے۔ وہ یہ دونوں کام بھی کرسکتے تھے، جس کا اُن کے پاس موقع، ماحول، بھی تھا اور گنجائش و حمایت بھی۔مگر وہ کارکردگی تو کیا دکھاتے، جو مرکزی ہدف ہی نہیں تھی، وہ اپنے حریفوں کوزیر کرنے کی اصل مگر غلط ترجیح کو بھی پورا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ اب اقتدار کے تیسرے برس وہ محسوس کررہے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی باگ اُن کے ہاتھ میں نہیں، اُن کے پا س پیش کرنے کو کوئی فردِ عمل نہیں۔ اگر پاکستانی تاریخ کی سفاک حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو درحقیقت وہ شدید خطرات کی دھند میں ہیں۔ اقتدار کا آخری یعنی پانچواں برس کسی حکمران کے لیے مثالی ثابت نہیں ہوتا۔ وہ آخری برس کارکردگی کے نام پر کچھ بھی دکھانے کا اس لیے اہل نہیں ہوتا کیونکہ سرکاری مشنری جانے والے وزیراعظم کی رخصتی اور آنے والے حکمران کے تیوروں سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ حکومتی مشنری دانستہ تساہل، تجاہل اور تغافل میں چلی جاتی ہے اور نئی حکومت کے انتظار میں رہتی ہے۔ یوں نظم مملکت ٹھپ رہتا ہے۔عمران خان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حکومتی مشنری کو نظمِ مملکت کے بوسیدہ اور کہنہ ادوار سے کاٹ کر نئے عہد کی بشارت کا یقین نہیں دلا سکے۔ حکومتی مشنری بدعنوان سیاسی و عسکری اشرافیہ کے ساتھ خود بھی ایک شراکت دار ہے۔ چنانچہ وہ عمران خان کے دعووں، وعدوں اور منصوبوں کو کامیاب بنانے کے بجائے اس میں ایک رکاؤٹ ہے۔ اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ سرکاری مشنری کے اہم پرزوں نے ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ سازباز کرکے حکومت کی بہت سی ناکامیوں کو یقینی بنانے میں ایک سازشی کردار ادا کیا ہے۔ اب ایسی سرکاری مشنری سے یہ امید رکھنا کہ وہ اقتدار کے آخری دو برسوں میں حکومت کی کامیابی کا ”مغالطہ“ پیدا کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب بنائے گی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔وزیراعظم اصلاح احوال کی ابتدائی کوششوں کو بھی منظم کرنے میں ناکام ہوگئے، پھر اُنہوں نے ریاست کے تمام فشاری اور متحرک گروہوں کو اپنا حریف بنالیا۔ ایسے میں صرف اسٹیبلشمنٹ کا سہارا کتنی دیر اور دور تک اُن کی مدد کرسکے گا؟
درحقیقت کسی بھی وزیراعظم کو اپنی کارکردگی کی سمت کا تعین ابتدائی سو دنوں میں کرنا ہوتا ہے اور اس میں کامیابی کی تصویر اقتدار کے تیسرے او رچوتھے برس دکھانی ہوتی ہے۔ عمران خان کا تیسر اسال اگست میں ختم ہوگا اور تیسرے کی طرح چوتھے سال کے لیے بھی کسی منصوبے کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ البتہ کچھ وزارتوں کے متعلق یہ سرگوشیاں جاری ہیں کہ اس میں جنم لینے والے اسکینڈلز کب اور کیسے سامنے آتے ہیں؟ عمران خان حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی تو کم ازکم کسی مثالی حکومت کی شفافیت کا کوئی تاثر ہی پیدا کرنے میں کامیاب رہتی۔ مگر وہ ایسا بھی نہیں کرسکی۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ واضح کردیا ہے کہ کرپشن کے اشاریے گزشتہ سال کے مقابل زیادہ بدتر ہیں۔ گویا کارکردگی کے میدان میں عمران خان اب کسی بڑی تبدیلی پر قادر دکھائی نہیں دیتے۔
حالات کے اس خوار و خجل پس منظر میں وزیراعظم عمران خان نے نہایت چابکدستی سے اب بحث کا رخ اقتدار کی مدت ونوعیت کی جانب موڑ دیا ہے۔ عمران خان کے مدینہ کی ریاست کے سرمدی تصورکا پانی اب چین کے نظام میں موجود دستوری آمریت پر مرنے لگا ہے۔ یاد کیجیے! عمران خان کرپشن، کرپشن کی جگالی کرتے ہوئے ہمیں بار بار، بتکرار اور بصداِصرار حضرت عمرؓ کا وہ واقعہ سناتے تھے جس میں اُن سے کوئی کرتے کا حساب مانگتا ہے۔ سب سے پہلے عمران خان کو اپنے حالیہ اقتدار کے کرتوں کا حساب دینا چاہئے پھر اُنہیں اقتدار کی نوعیت یا مدت پر سوال اُٹھانا چاہئے۔ وہ اپنے ہی اعلان کردہ معیارات پر خود کو پرکھنے کے لیے پیش کرنے کوتیار نہیں۔ مگر اب باتیں طویل مدتی اقتدار اور چین طرزِ حکمرانی کی کررہے ہیں۔ اُن کے یہ تصورا ت بھی ناقص ہیں، اس کا جائزہ آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں نکتہ صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پانچ سال کو اپنے لیے ناکافی قرار دے کر طویل مدت اور آمرانہ اُسلوب حکمرانی پر اِصرار نے یہ واضح کردیا ہے کہ عمران خان کو خود بھی یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ پانچ سال میں حکومت کو کامیاب تو کیا دکھا پائیں گے، اس کا کوئی مغالطہ بھی پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے۔ داغ دہلوی یہ کیا کہہ گئے:
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔