میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے ساتھ تعاون امریکا کے مفاد میں ہے

پاکستان کے ساتھ تعاون امریکا کے مفاد میں ہے

منتظم
جمعه, ۱۶ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

امریکا میں متعین پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کو خطے اور افغانستان میں امن واستحکام کے لیے مل کر کام جاری رکھنا چاہیے۔پاک امریکا تعلقات پر لاس انجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات 70 سال پر محیط ہیں جن میں نشیب و فراز آتے رہے، جب بھی پاکستان اور امریکا نے مل کرکام کیا دونوں کو فائدہ ہوا، اسی لیے دونوں ممالک کو خطے اور افغانستان میں امن واستحکام کے لیے مل کر کام جاری رکھنا چایئے اور ہم امریکا سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے، فوجی حل سوچنا خام خیالی ہوگی اور افغانستان میں سیاسی حل ہی بہترین آپشن ہے۔

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے امریکا میں متعین پاکستانی سفیر کابیان نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی بلکہ عالمی حقائق کے عین مطابق ہے ، پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے ناسو ر کو ختم کرنے کے لیے بلاشبہ عظیم قربانیاں دی ہیں اور پاک فوج اور عوام کی ان ہی قربانیوں کے طفیل آج اس خطے میں دہشت گردی آخری سانسیں لے رہی ہے اور دہشت گرد اپنے ٹھکانے تبدیل کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان جہاں برسہابرس سے امریکی اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی تعینات ہیں اس وقت دہشت گردوں کی نرسری بناہوا ہے اور دہشت گرد افغانستان کے وسیع علاقے پر قابض ہیں جہاں ان کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا،دہشت گردی افغانستان میں اپنی محفوظ کمین گاہوں سے نکل کر افغانستان یہاں تک کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں اور پھر افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں اسی صورت ھال کے پیش نظر پاک فوج نے ایک سے زیادہ مرتبہ افغانستان کو دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کی تجویز پیش کی ہے ،لیکن افغان حکومت امریکی دبائو پر پاکستان کی اس مخلصانہ پیشکش کامثبت جواب دینے کے بجائے الٹا افغانستان میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعہ کے ذمہ داری پاکستان پر عاید کرنے کی کوشش کرتاہے۔ دوسری جانب چین موجود ہے جو امریکا کے برعکس زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیا ں ترتیب دے رہاہے اور یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہے یہاں تک کہ اس کے دشمن ملک بھی اس کی مدح سرائی پر مجبور ہیں۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت چین وہ واحد ملک ہے جو امریکا کی ہوس ملک گیری کی راہ میں چٹان کی طرح کھڑا ہواہے ،اور درجنوں ترقی پذیر اور کمزرو ممالک کو امریکا کی دست برد سے بچائے رکھنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ چین و امریکا دونوں ہی دنیا کو اپنی پالیسی پر چلانے کے آرزو مند ہیں مگر ایجنڈا یکساں ہونے کے باوجود دونوں کا کام کرنے کا انداز مختلف ہے چین تجارت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کے ساتھ نئی گزرگاہیں تعمیر کر رہا ہے کام سے قبل دوستانہ ماحول بناتا ہے پھر سرمایہ کاری شروع کرتا ہے،اگرچہ ان تمام منصوبوں میں مکمل شفافیت کے بارے وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ اِس بات میں شبہ نہیں کہ چینی کمپنیاںخفیہ ڈیل کے ذریعے ٹھیکے حاصل کرنے اور اس طرح منافع بڑھانے کوبْرا تصور نہیں کرتیں ایسی کمپنیوں کے خلاف چین کی حکومت بھی کارروائی کرتی رہتی ہے جس میں بھاری جرمانوں سے لے کر لائسنس کی منسوخی تک کہ سزائیں شامل ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر منصوبہ کی نگرانی دنیا کی کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں اسی لیے کچھ دو کچھ لو کا بْرا کام جاری ہے۔

چین کی حکومت دیگر ممالک کے برعکس کسی بھی ملک کے خلاف تنائو پیدا کرنے سے حتی الامکان گریز کرتا ہے اوراسی پالیسی کے تحت دوستوں کی معیشت بہتر بناکر منافع کمانے کے ساتھ اپنا عالمی کردار بڑھانے کے لیے تائید لے رہا ہے وہ حریف ممالک سے بھی ٹکرائو کی نوبت نہیں آنے دیتا بھارت کی سازشوں کا ادراک ہونے کے باوجود چین بھارت میںبھاری سرمایہ کاری کا سلسلہ منقطع نہیں کررہا کیونکہچین کے رہنمائوں کو اس بات کااحساس ہے کہ بھارت متوسط طبقے کے لوگوں کی بڑی منڈی ہے جہاں سے کثیر منافع مل سکتا ہے۔دلائی لامہ کی حمایت اور تبت کے تنازعہ کو ہوا دینے نیز امریکی حاشیہ بردار بننے کے باوجودبھارت پرچین کو ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے اسی لیے اْسے یقین ہے بھارت کبھی ٹکرانے کی 1962والی حماقت دوبارہ نہیں دْہرائے گا۔ چین نے افریقی ملک جیبوتی میں بھی فوجی اڈہبنا لیا ہے یہ اْس کا کسی دوسرے ملک میں پہلا اڈہہے حیران کن بات یہ ہے کہ چین کی طرف سے اڈہ بنانے کی کہیں سے مخالفت نہیں ہوئی بلکہ دوستانہ ماحول ہے اب واخان کی پٹی پر نئے فوجی اڈے کی تعمیر کی باتیں گردش کررہی ہیںیہ علاقہ چین ،روس اور افغانستان کو جدا کرتا ہے اس اڈے کی تعمیر سے قبل چین افغانستان کو اعتماد میں لینے کے لیے کوشاں ہے حالانکہ افغانستان چاہے بھی توچین کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی پوزشن میں نہیں آسکتامگر چین بدمزگی نہیں چاہتااْسے بخوبی معلوم ہے کہ افغان حکومت آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہے۔

روس اورپاکستان تو چینی پالیسیوں سے کلی متفق ہیں لیکن امریکی پالیسی ساز ہراس کا شکار ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیںکہ جوں جوں عالمی سطح پر چین کا کردار بڑھے گا اْسی رفتار سے امریکا کی واحد سْپر طاقت کی حیثیت متاثر ہوگی اسی لیے امریکا بھارت کے ذریعے چین کو گھیرنے اور محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکا اورچین کی پالیسیوں میں فرق صرف یہی ہے کہ امریکا نے مواقع ملنے کے باوجود تنازعات ختم کرانے میں ذمہ دارانہ طرزعمل نہیں اپنایا تاکہ دنیا میں امن قائم ہو بلکہ کوشش کی ہے کہ متحارب فریقوں میں ٹکرائو کی نوعیت میں اضافہ کیا جائے تا کہ امریکا کو اسلحہ کے نئے خریدار دستیاب ہوں امریکا کی یہ پالیسی ہتھیاروں کی تجارت کے لیے تو سود مند ہے لیکن امن پسند حلقوں کو بدظن کرنے کا باعث بنی ہے جس سے واحد سْپر طاقت کے کردار کو دھچکا لگا ہے۔ سی پیک کی مخالفت سے امریکا کو نیک نامی نہیں ملی ایک تجارتی منصوبے میں شامل ہو کر وہ بھی فوائد حاصل کر سکتا تھا امریکی مخالفت کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اِمریکہ کامقصد کشیدگی کی فضا کو قائم رکھنا ہے تاکہ اسلحہ کی فروخت کے امکانات میں اضافہ ہوتارہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے سے متعلقہ ممالک میں خوشحالی آئے گیجس سے دیرپاامن کے قیام میں مدد مل سکتی،خیال کیاجاتاہے کہ امریکا اسی لیے جان بوجھ کر بدامنی کو فروغ دے رہا ہے اور افغانستان کی بے اختیار حکومت کٹھ پتلی کی طرح اْس کے اشاروں پر رقصاں ہے اس کاواحد مقصدبظاہر پاکستان اورچین میں فاصلے بڑھانا معلوم ہوتاہے لیکن چین کے رہنمائوں نے پاکستان پر امریکی الزامات کا جس طرح منہ توڑ جواب دیاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکا کو اس میں کامیابی نہیں ہوگی اگر چین دنیابھر میں اربوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے بھی اْس کے پاس آپشن بھی ضرور ہوں گے انجام کار پاکستان میں بھی فوجی اڈے کی تعمیر ہو سکتی ہے تا کہ گوادر کی ناکہ بندی کی صورت میں کاروائی کی جاسکے۔

امریکا کی خارجہ پالیسی میں یہ بھی خامی ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو دھمکیاں دینے کے ساتھ حلیفوں کو بھی دبائو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے دور کیوں جائیں نیٹو کے رکن ترکی کی مثال لے لیں اگر امریکا چاہتا تو ستمبر 2017میں عراقی کردستان ریجن میں ریفرنڈم کی نوبت نہ آنے دیتامگر دور بیٹھ کر تماشہ دیکھتا رہا۔ کرد علاقے کے صدر مسعو د برزانی اپنی فوج رکھتے ہیں جن کے پاس امریکی ساختہ ہتھیار ہیں نتیجہ یہ ہے کہ ترکی اور کرد لڑائی میں وسعت آرہی ہے کیونکہ ترکی نے یہ پیغام لیا ہے کہ ریفرنڈم سے اگر کرد ریاست وجود میں آجاتی ہے تو کل کو ترک آبادی کا 17فیصد کرد بھی آزادی لے کر گریٹ کردستان کا حصہ بن سکتے ہیں خدشہ کی وجہ یہ ہے کہ ریفرنڈم میں سوال دریافت کیا گیا کہ کرد ریجن اور کرد ریجن سے باہر علاقوں پر مشتمل کیا آپ آزاد ریاست بنانے کے حمایتی ہیں اِس سوال کی 90 فیصد نے حمایت کی صدام حسین کے بعد کردوں میں قوم پرستی کا بیج بونے میں امریکا نے محنت کی ہے کردش ورکر پارٹی سے ترکی 1980سے برسرپیکار ہے ترکی نے ریفرنڈم کو امریکا کی طرف سے اتحادی کو دبائو میں رکھنے کی کاوش تصور کیاہے جو ترکی اور امریکا کے درمیان دوری بڑھانے کا سبب بن گیاہے شمالی شام کے قصبے عفرین میں ترک و امریکی افواج چند کلو میٹر کی دوری پر ہیں اگر ٹکرائو کی نوبت نہیں بھی آتی تب بھی دونوں ممالک کے دوستانہ مراسم میں واضح دراڑ آ گئی ہے گزشتہ برس ہونے والی فوجی بغاوت کی سرپرستی کا الزام بھی ترکی امریکاپر لگاتاہے لیکن اس کے برعکس چین دوست یا دشمن کے خلاف ایسی سازشوں سے اجتناب برتتا ہے۔یہ وہ صورت حال ہے جو عالمی منظر نامے میں کسی بھی وقت بڑی تبدیلی کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں