سانحہ مشرقی پاکستان کا نوحہ
شیئر کریں
مملکت خدادادِ پاکستان کو اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت سے حادثات اور سانحات کا سامنا کرنا پڑا قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کا صدمہ ابھی قوم بھول بھی نہیں پائی تھی کہ قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا پھر اس کے بعد تو جیسے نحوست کے سائے نے پاکستان پر ڈیرے ڈال لیے پے درپے صدمات اور سانحے پھر وہ دن بھی آگیا جب قوموں کی برادری میں ہمارا وقار بری طرح مجروح ہوا افواج پاکستان کو اپنے بدترین دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کی شرمندگی اٹھانی پڑی ہر محبِ وطن پاکستانی کا سرندامت اور شرمساری سے جھک گیا 16دسمبر 1971 کی تاریخ صرف اہل پاکستان کیلیے نہیں بلکہ عالم اسلام کے ماتھے کا کلنک کا ٹیکہ بن گیا۔ اقبال کے خواب کی تعبیر قائد کی انتھک محنت کا صلہ مملکتِ خدادادِ پاکستان جسے لاکھوں مسلمانان برصغیر اپنے مقدس لہوکا خراج دے کر حاصل کیا تھا آج دو لخت ہوگیا۔ اندرا گاندھی کے بقول 1193ء میں شہاب الدین محمد غوری کے ہاتھوں ترائن کے میدان میں برہمنی سا مراج کو ہونے والی شکست کا بدلہ رمنا ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ میں لیکر حساب برابر کردیا۔
جی ہاں رمنا ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ اسی سرزمین میں واقع ہے جہاں 1906ء آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسی سرزمین کے ایک سپو ت اے کے فضل الحق نے 1940ء میں قراداد پاکستان پیش کی تھی۔ جن بنگالی قائدین کو برٹش انڈیا نے تقسیم بنگال کا جھانسہ دیکر تحریک پاکستان سے الگ کرنا چاہا مگر وہ اس دام فریب میں آنے کے بجائے قائدکا ہرادل دستہ بن کر قیام پاکستان کے لیے سینہ سپر رہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اسی سرزمین کے باسیوں اور انہیں قائدین کی اولادوں نے صرف 24سال چار ماہ اور دو دن بعد اپنی سرزمین سے لقط پاکستان حرف غلط کی طرح مٹادیا۔ کیوں؟ ان کے دل و دماغ میں اتنا زہر بھر گیا کہ انہیں پاکستان زندہ باد کہنے والا بہاری ہو یا بنگالی، عورت ہو یا مرد بوڑھا ہو یا بچہ کسی کا وجود اپنی سرزمین پر گوارا نہ تھا۔ اس کی شدت کا اندازہ لگائیے کہ 47سال گزرجانے کے باوجود آج بھی انکا آتش انتقام سرد نہیں ہوا۔ وہ آج بھی اپنے ہی ہم زبان ہم وطن ان لوگوں کو جو انڈیا کے مقابلے میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے تختہ دار پر چڑھا رہے ہیں۔ ہمارا کھلا دشمن بھارت تو آشکار ہے جس نے بنگال میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ علیحدگی پسندوں کو پناہ ، تربیت اور وسائل مہیا کیے۔ لیکن کیا ہم کبھی اپنے آستین کے سانپوں اور اپنے ناعاقبت اندیش راہ بروں کے چہرے بے نقاب کرسکیں گے۔ کیا حمودالّرحمٰن کمیشن رپورٹ کے غائب شدہ 20صفحات کبھی منظر عام پر آسکیں گے۔
یہاں یہ سوال ہم قارئین اور اہل فکر و دانش کے لیے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں ایک طرف نظریہ پاکستان تھا اور دوسری طرف بنگالی انتہا پسندی (خواہ اسکے محرکات کچھ بھی تھے) بنگال کی بہاری اقلیت نے سبز ہلالی پرچم تھام کر نظریہ پاکستان سے پیمان وفا کو نبھانے کا عزم کیا وہ چاہ کر بھی بنگالی انتہااپسندوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔کیونکہ مادری زبان اردو انہیں مغربی پاکستان کا ایجنٹ یا دلال ثابت کرنے کے لیے کافی تھا پھر یہ کہ وہ جس چمن کی آبپاری کے لیے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صرف 24سال قبل ہجرت کا عذاب اور مال ومتاع کی قربانی دے چکے تھے اپنے ہی ہاتھوں ہندو سامراج کی جھولی میں ڈالنے کا جرم کیونکر کر سکتے تھے۔ چنانچہ ہواکی دوش پر چلنے کے بجائے نتائج کی پراہ کیے بغیر ہواکے مخالف چلنا شروع کردیا نتیجتاً سقوط ڈھاکہ سے بہت پہلے ان پر عرصہء حیات تنگ کردیا گیا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو ملنے والی بھاری اکثریت نے بنگالی شدت پسندوں کو بے لگام کردیا اور وہ طے شدہ منصوبے کے مطابق حملہ آور ہوکر بہاری بستیوں کو تاراج کرتے لاشوں کے ڈھیری لگاتے عصمت وعفت پر شب خون مارتے لیکن انڈین میڈیا انہی لاشوں ،تباہ حال بستیوں اور خانما برباد عورتوں اور بچوں کو مظلوم بنگالیوں کی بربادی بنا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا رہا ۔ ہمیں افسوس ہے کہ آج پاکستان کے بعض سیاسی زعماء اورقلم کار عوامی لیگ کے جھوٹے پروپگنڈے کی تان سے تان ملاکر تیس لاکھ مظلوم بنگالیوں کی نام نہادد شہادت پر تو آنسے بہاتے ہیں مگر اس سے کہیں زیادہ وہ تعداد میں شہید ہونے والے محبت وطن بہاریوں اور متحدہ پاکستان کی حامی بنگالیوں کی شہادت انہیں نظر نہیں آتی ہے امریکہ میں مقیم بھارتی نزاد مضفہ ڈاکٹر شرمیلا پوس نے گزشتہ سال اپنی کتاب میں مشرقی پاکستان میں ہونے وایل فوجی آپریشن اور مکتی باہنی کے انسانیت سوز مظالم کا غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے عوامی لیگ کے دعوے کو چھوٹا لغو اور بنیاد قرار دیا ہے۔
نیز انہوں نے لکھا کہ دنیا ج پور کی جن کنچن ندی کے پانی کو بنگالیوں کے خون سے سرخ ہونے کا دعویٰ عوامی لیگ کرتی ہے وہ بنگالیوں کا نہیں بہاریوں کے خون سے سرخ ہوا تھا۔جماعت اسلامی کے اسیر رہنما پروفیسر غلام اعظم کی وفات کے موقع پر جرم وفاکی سزا کے عنوان سے مورخہ 30اکتوبر2014کو اپنے کالج میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے لکھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف دفاع وطن کیلیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کی تاریخ کا کوئی والی وارث نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مدعی اور وکیل ہے ۔ لہٰذا پاکستان سے عہد وفا نبھانے والے ایک طرف بنگلہ دیش میں غدار باغی، تخریب کار و قاتل اور جنگی مجرم وغیرہ قرار دیئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ فوج کی بی ٹیم اور بنگالیوں کے قاتل جیسی گالیاں کھاتے ہیں۔ اسی کالم میں داکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں۔ کہ "مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ بعض نامور صحافی بنگلہ دیشی اور عوامی لیگی پروپگنڈے کا شکار ہوکر متحدہ پاکستان کیلیے سردھڑ کی بازی لگانے والے ہیروز کو جنگی مجرم کے طور پر پیش کر ہے ہیں۔
اگر ہمارا طرزعمل یہ ہوگا تو پھر وطن کے استحکام کیلیے جانیں پیش کرنے والوں کو ہزار بار سوچنا پڑے گا کہ کل ان کی قربانی کو نذرانہ شمار کیا جائے گا۔ یا انہیں جنگی مجرم قرار دیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح آج بنگلہ دیش کے محصورین کا حال ہے اس روئے زمین پر ان کی کوئی جائے پناہ نہیں نہ وہ کسی ملک کے شہری ہیں نہ انکے کوئی حقوق بنگلہ دیشن میں انہیں جنگی مجرم پاکستانی ایجنٹ غدار و باغی قرار دیکر عضوِ معطل کی طرح کیمپوں میں محصور کردیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی عہد وفا نبھانا قیام اور دفاع پاکستان کے لیے جان، مال، عزت و ناموس کی قربانی دینا انکا جرم سمجھ لیا گیا ہے اور شاید یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کی سزا میں صرف عمر قید نہیں بلکہ نسل درنسل رسوائی کی اتاہ گہرائی میں پناہ کے گھاٹ اترنا لکھ دیا گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کے مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا وہ لکھتے ہیں کہ "یہ غلط ہے کہ 90ہزار پاکستانی فوجی جنگی قیدی بنے بھارت میں قید ہونے والے صرف 45ہزار فوجی تھے باقی سیویلین تھے۔ ” گویا ایسٹ پاکستان سِول آرم فورس کے بہادر جوانوں کو وہ افواج پاکستان کا حصہ بیشک نہ سمجھیں مگر ان کا تذکرہ تو کردیتے۔ دفاع وطن کیلیے دی جانی والی ان کی قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے اس طرح کھرچ دیناتاریخی بددیانتی نہیں۔
مفلسی زیست کا حاصل ہے ہمارے ہی لیے
ہم غریبوں کا بھی کوئی تو خدا ہو یارو
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قومیں اپنے ماضی کی تلخ حقائق کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا ازالہ اور مداواکرتے ہوئے اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔ آج 47سال بعد سانحہ مشرقی پاکستان کا نوحہ لکھتے ہوئے میں یہ سوال اپنے اربات بست وکشادکی خدمت میں چھوڑ رہا ہوں کہ کیا من حیث القوم ہمارا طرز عمل اسکے برعکس نہیں۔ ہم نے نا صرف المیہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھا بلکہ اسے بھلا بھی دیا ہے اور اب اپنی من مانی توجیحات پیش کرکے تاریخ کو بھی مسخ کر رہے ہیں۔