ریپ کیسز ،خصوصی عدالتوں کے لیے آئندہ ہفتے آرڈیننس لانے کی تیاری مکمل
شیئر کریں
حکومت نے ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں قائم کرنے سے متعلق آئندہ ہفتے ایک آرڈیننس لانے کی تیاری مکمل کرلی جس میں گواہوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اور اس مقصد کیلئے علیحدہ پروسیکیوشن (استغاثہ) نیٹ ورک کے تشکیل کی تجویز دی گئی ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بذریعہ ٹوئٹ اس اعلان کے بعد کہ حکومت تمام نقائص کو دور کرتے ہوئے ایک سخت اور مجموعی انسداد ریپ آرڈیننس لارہی ہے کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے مندرجہ بالا بات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ ٹوئٹ سندھ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش بروڑو سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کیا گیا تھا۔نجی ٹی وی کے مطابق بابر اعوان جو قانون سازی پر قائم کابینہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ملک کے مختلف حصوں میں ریپ کے حالیہ واقعات پر بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھے ۔انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس وزیراعظم عمران خان کی اپنی قانونی ٹیم کو دی گئی ہدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے اس میں 4 چیزوں کو کور کیا گیا ہے ، جس میں متاثرہ فرد کا تحفظ بھی شامل ہے تاکہ اس کا ذاتی صدمہ عوامی نہ بن سکے اور گواہوں کا تحفظ ہو۔مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ مجوزہ قانون کے تحت ریپ کیسز کی تحقیقات ایک عام پولیس عہدیداروں کی جانب سے نہیں کی جاسکے گی بلکہ ان کیسز کے لیے صرف ڈی آئی جی (ڈپٹی انسپکٹر جنرل) یا ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس) کی سطح تک کا گیزیٹڈ افسر نگرانی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون میں مقدمات جلد از جلد نمٹانے کیلئے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ کچھ برسوں میں 21 ہزار سے زائد ریپ کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور ان میں سے ‘صرف کچھ سو ہی ٹرائل کے لیے جاسکے ۔بابر اعوان نے کہاکہ نقائص کو دور کرنے اور بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ایک نیا اور علیحدہ استغاثہ کا نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے ۔اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے سزایافتہ افراد کی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ مجرمان کو ‘حتمی اور سخت سزائیںدی جائیں گی، انہوں نے ان اقدامات کی توثیق نہیں کی جو اس مقصد کے لیے قانون تجویز کرتا ہے تاہم انہوں نے سرعام پھانسی کے آپشن کو مسترد کردیا، جس کا کچھ سیاسی رہنماؤں یہاں تک کہ وزرا کی جانب سے بھی مطالبہ سامنے آیا تھا۔انہوںنے کہاکہ ٹرائلز کے مکمل ہونے میں تاخیر کو روکنے کے لیے تمام ڈویڑنز میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ جب ان کی توجہ اپوزیشن کی جانب سے کی جانی والی اس تنقید پر کروائی گئی کہ قانون سازی کے لیے حکومت صدارتی آرڈیننسز پر انحصار کرتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم نے آرڈیننس کے اجرا کی توثیق کردی ہے جسے امریکا سمیت بہت سے ممالک میں جائز قانون سازی سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ آرڈیننسز تب جاری کیے گئے جب پارلیمنٹ کا سیشن نہیں تھا چونکہ اس دوران کووڈ19 کی صورتحال کی وجہ سے پارلیمنٹ سیشن میں نہیں تھا لہٰذا حکومت آئین کے مطابق آرڈیننسز جاری کرسکتی تھی اور یہ آرڈیننسز بالآخر پارلیمنٹ میں گئے جس نے قوانین کا نفاذ کیا۔