عدلیہ کیخلاف میاں نوازشریف کا جارحانہ انداز
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف نے اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز پارٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنمائوں کو 2018کے عام انتخابات کی تیاری کا ٹاسک دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کریں اور آئندہ انتخابات کے متوقع امیدواروں کی نشاندہی کریں۔ اجلاس میں انتخابات کی تیاری کی تجویز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری نثارعلی خاں کی جانب سے پیش کی گئی پارٹی کے اجلاس میں چوہدری نثار کاموقف یہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) سست روی کا شکار ہے اس لیے پارٹی کے رہنمائوں کو اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہیے۔ پنجاب ہائوس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں احتساب عدالت میں جاری کارروائی پر بھی مشاورت کی گئی اوراجلاس میں ہونیوالی مشاورت کی بنیاد پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ نظرثانی درخواست میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے بنیاد ہے۔ اس میںنوازشریف کے بارے میں جو کہا گیا وہ عدالتی زبان کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ذیلی عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ اس میں متوقع اپیل کا فیصلہ بھی ابھی سے سنادیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق نوازشریف کے بارے میں جملے کسی عدالت کے لیے باعث فخر نہیں ہو سکتے۔ یہ عدالتی فیصلہ بغض‘ عناد‘ غصہ اور اشتعال کی افسوسناک مثال ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں شاعری کا سہارا لیتے ہوئے ’’رہبری‘‘ کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ رہبری کرنیوالوں نے ہی پاکستان بنایا اور اس کے لیے قربانیاں بھی دیں اس لیے سوال رہبری کا نہیں منصفی کا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 70 برس کے دوران قافلے کیوں لٹتے رہے اور کن رہزنوں نے لوٹے۔ قافلے اس لیے لٹے کہ رہزنوں کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اور ان کے لیے وفاداری کے حلف اٹھالیے گئے جبکہ رہزنوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کیے گئے اور رہزنوں کے لیے آئین سے کھیلنے کے فرمان جاری کیے گئے اس لیے 70 سال پر پھیلا ہوا سوال رہبری کا نہیں‘ منصفی کا ہے۔
میاں نوازشریف کو یہ زعم ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کی بدولت ہی دوبار پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں اس حوالے سے وہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاالحق کی مہربانیوں کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیںاور اس بات کااعتراف کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی مہربانی سے جنرل جیلانی تک پہنچے اور جنرل جیلانی نے انھیں جنرل ضیا کی گود میں ڈال دیا اور جنرل ضیانے ازراہ مہربانی انھیں بتدریج ترقی دیتے دیتے ملک کی وزارت عظمیٰ تک پہنچادیا۔ انہیںیہ بھی زعم ہے کہ انھیں اس بڑے پیمانے لوٹ مار اورمنی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں روپے کی بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے ناقابل تردید الزامات سامنے آنے کے باوجود عوامی تائید حاصل رہے گی اور 2018کے انتخابات میں بھی وہ اور ان کی پارٹی سرخرو ہو جائیگی،ایساکرتے اورسوچتے ہوئے وہ یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت ان کی پشت پر نہیں ہے اور انھیں قدم بڑھائو کی ترغیب دینے والوں میں اکثریت ان ہی کی ہے جو کڑا وقت پڑتے ہی غائب ہونے میں دیر نہیں لگاتے ، نواز شریف یہ سادہ سی حقیقت سمجھنے سے گریز کررہے ہیں کہ اگر عوام کی چھوٹی سی جماعت بھی ان کے ساتھ ہوتی تو ان کو نااہل قرار دئے جانے کافیصلہ آتے ہی وہ لوگ ان کی حمایت پر سڑکوںپر نکل آتے لیکن ایسا نہیں ہوا یہاں تک کہ جی ٹی روڈ پر عوامی کچہری لگانے کے ان کے فیصلے کے بعد پوری وفاقی اور پنجاب حکومت کی پوری مشینری مل کر بھی مطلوبہ تعداد میںلوگ جمع کرنے میں ناکام رہی، نواز شریف یہ سمجھنے سے بھی گریزاں ہیں کہ اگر عوام کو ان سے اتنی ہی محبت ہوتی تو تین مرتبہ ٹھوکر مار کر نکالے جانے پر کوئی ان کی حمایت میں باہر کیوں نہیں آیا جبکہ بھٹو کو اقتدار سے محروم کیے جانے پر پاکستان کے تمام شہروں میں لوگوں کا جمع غفیر امڈ پڑا تھا اور لوگوں نے بھٹو کی محبت میںجیل جانے ،کوڑے کھانے اور پھانسی پر لٹکنے سے بھی گریز نہیں کیاتھا۔ اب نواز شریف اپنے دورِاقتدار کی تمام ناکامیوں کو اپنے کارناموں کارنگ دے کر پوری تیاری کرکے عوام کی عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں جس کے لیے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں بطور خاص تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے تو پبلک جلسوں کے ذریعے کافی عرصے سے رابطہ عوام مہم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ان جماعتوں کے قائدین عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری اور سراج الحق پانامہ لیکس اور نیب کے ریفرنسوں کے حوالے سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف‘ ان کے خاندان اور حکومت پر جمہوریت اور آئین و انصاف کی عملداری کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ اس کے علاوہ عوام کو روٹی روزگار کے بدترین مسائل اور توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کا بھی سامنا ہے جس کے باعث مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوامی حلقوں میں بھی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ اصولی طور پر تو حکمران مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن کی مخالفانہ سیاست کے توڑ کے لیے ملک بھر میں پبلک جلسوں کا انعقاد کرکے اپنی حکومت کے کارناموں اور آئندہ کے پارٹی منشور سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ عوامی فلاح کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی تیزی لانی چاہیے مگر اس کے برعکس خود میاں نوازشریف‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور وزرا نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور احتساب عدالت میں جاری کارروائی کی بنیادپر جارحانہ انداز میں عدلیہ اور فوج کیخلاف مہم شروع کردی ہے جس کے دوران بالخصوص عدلیہ پر تعصب‘ جانبداری اور انتقامی کارروائیوں کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے گزشتہ روز بھی احتساب عدالت میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عدلیہ کے حوالے سے وہی الفاظ استعمال کیے جو مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں بھی موجود ہیں۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے اداروں کے ساتھ محاذآرائی کی پالیسی اپنی اعلیٰ قیادت کی ہدایت اور منشاکے مطابق ہی طے کی ہے۔
میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے عہدیداروں کو کسی عدالتی فیصلہ پر تحفظات کے اظہار کا یقیناً حق حاصل ہے تاہم اس اظہار کے لیے عدلیہ کا فورم ہی مجاز فورم ہے جہاں کسی فیصلے کیخلاف اپیل‘ نظرثانی کی درخواست اور متفرق درخواستیں بھی دائر کی جا سکتی ہیں اور ان درخواستوں اور اپیلوں میں ٹھوس دلائل اور شواہد کے ساتھ متعلقہ عدالتی فیصلہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے جبکہ ان درخواستوں اور اپیلوں کی سماعت کے دوران متعلقہ فریق کے وکلا بھی اپنے دلائل میں متعلقہ عدالتی فیصلہ کی خامیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کی جانب سے دادرسی کا یہ مجاز فورم بھی استعمال کیا جارہا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ عدالت کے باہر عدالت لگانے اور عدلیہ پر ملبہ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ میاں نوازشریف کی نظرثانی کی درخواست میں دو روز قبل جاری کیے گئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے مفصل فیصلے میں جس طرح میاں نوازشریف کے بارے میں سخت ریمارکس دیئے گئے وہ بادی النظر میں میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے جارحانہ انداز میں شروع کی گئی عدلیہ مخالف مہم کا ہی ردعمل نظر آتا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ میاں نوازشریف کو قانون اور انصاف کی عملداری میں اگر کوئی رعایت مل سکتی تھی تو عدلیہ کے بارے میں جارحانہ طرز عمل اختیار کرکے انہوں نے خود ہی یہ موقع کھو دیا ہے۔ اگر وہ اور ان کے وکلا میرٹ پر کیس لڑیں اور دلائل و شواہد کے ساتھ اپنے خلاف دائر ریفرنسوں کا دفاع کریں اور ساتھ ہی ساتھ عدالتی کارروائی میں اپنی شمولیت کو بھی یقینی بنائیں تو ان کے لیے انصاف کی عملداری میں سرخرو ہوکر نکلنے کا امکان بھی موجود رہے گاتاہم انہوں نے اداروں کے ساتھ محاذآرائی کی موجودہ پالیسی برقرار رکھی تو اس سے ان کیحکومت ہی نہیں‘ پورے سسٹم کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ روز اسی تناظر میں بیان دیا ہے کہ میاں نوازشریف نے عدالتی فیصلے کو ججوں کا غصہ اور بغض قرار دے کر اپنا جمہوریت دشمن ایجنڈا خود ہی بے نقاب کردیا ہے اس لیے ان سے ملاقات یا تعاون ملک دشمنی کے زمرے میں آئے گا۔ اسی تناظر میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی نوازشریف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ نے پہلی بار کسی طاقتور کا احتساب کیا ہے۔ اس کے علاوہ مخدوم جاوید ہاشمی نے جو آج بھی میاں نوازشریف کے ہمدرد گردانے جاتے ہیں‘ ملک میں پھر سے مارشل لالگنے کی تیاریوں کی نشاندہی کردی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے پھر باور کرایا ہے کہ یہ وقت عدالتی فیصلوں پر تنقید کا نہیں بلکہ ہمیں عدلیہ سے انصاف کی توقع رکھنی چاہیے۔ انہوں نے اپنے پارٹی قائد میاں نوازشریف کو ہی عدالتی فیصلوں پر تنقید کے حوالے سے موردالزام ٹھہرایا ہے اور اپنی اس تجویز کا اعادہ کیا ہے کہ میاں شہبازشریف کو پارٹی کے معاملات سنبھال لینے چاہئیں۔
اس وقت جبکہ عوام کی عدالت میں جانے کے لیے انتخابات کی تیاری اور رابطہ عوام مہم کا آغاز مسلم لیگ (ن) کی اولین ضرورت ہے‘ نوازشریف اوران کی صاحبزادی کی جانب سے عدلیہ مخالف بیانات میں شدت لا کر اور اداروں کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرکے بادی النظر میں سسٹم کی بقاکے لیے ہی خطرات پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس کا انہیں آنیوالے عدالتی فیصلوں میں بھی اور عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے معاملہ میں بھی نقصان ہو سکتا ہے جبکہ سیاسی کشیدگی کی بڑھتی ہوئی فضا کے باعث پورے سسٹم کی بساط کی لپیٹے جانے کے خدشات کوبھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ صورتحال مسلم لیگ (ن)کے قائدین سے ہوش سے کام لینے اور سسٹم کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچنے دینے کے لیے فہم و بصیرت کا راستہ اختیار کرنے کی متقاضی ہے۔ اگر مخالفانہ سیاست سے سیاسی کشیدگی اور تنائو بڑھتا رہا تو پھر سیاسی قیادتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ کیا بہتر نہیں کہ ایسی افسوسناک صورتحال کی نوبت آنے سے پہلے ہی خود کو سنبھال لیا جائے اور مخالفانہ سیاست میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکور کرنے کے بجائے سسٹم کو محفوظ رکھنے کی کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرلی جائے۔امید کی جاتی ہے کہ نواز شریف جوش جذبات اورغصے اور جھنجھلاہٹ میں اپنے ہی بازو پر کاٹ کر اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا منہ نوچ کرخود کو زخمی کرنے کی موجودہ روش ترک کرکے ہوش کے ناخن لینے کی کوشش کریں گے، اور صبر وسکون کے ساتھ اگلے عام انتخابات کی تیاری پر توجہ مرکوز کریں گے۔