میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی نومنتخب صدر یا اسرائیل کا ”ٹرمپ“ کارڈ؟

امریکی نومنتخب صدر یا اسرائیل کا ”ٹرمپ“ کارڈ؟

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

sehra-ba-sehra-1

محمد انیس الرحمن
امریکا کے حالیہ الیکشن کے نتائج نے نہ صرف امریکی اسٹیبلشمنٹ کو حیران کردیا ہے بلکہ تمام دنیا ایک عجیب قسم کے ورطہ میں مبتلا ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ایسے ایسے سوالات نے سر اٹھا لیا ہے جس کا ماضی قریب میں امریکی سیاسی تاریخ کے حوالے سے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ امریکا میں سیاسی طاقت اور انتخابات کا کھیل امریکی اسٹیبلشمنٹ کے طے کردہ اصولوں کے تحت کھیلا جاتا ہے۔ اس اسٹیبلشمنٹ کی باگیں اس عالمی صہیونی لابی کے ہاتھ میں ہے جو اس کھیل کو دنیا بھر میں اپنے شیطانی مفاد کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔لیکن اس مرتبہ ایسا کیا ہوگیا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑتی نظر آئیں، کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈٹرمپ کے حوالے سے تقسیم ہوگئی؟ انتخابی مہم کے انتہائی اہم اور اختتامی مرحلے پر امریکی ایف بی آئی کی جانب سے ہیلری کلنٹن کی متنازعہ ای میلز کے مسئلے کو کیوں اٹھایا گیااور فورا ہی اسے کیوں دبایا بھی گیا؟ امریکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد اس طرح منظم انداز میں مظاہرے کئے گئے ہوں لیکن اس مرتبہ امریکی نام نہاد جمہوریت یہ مناظر بھی دیکھنے پر مجبور ہوئی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ امریکی نظام سے واقف بڑے بڑے ماہرین کے تجزیے اور اندازے الٹ گئے ۔۔۔ آخر کچھ تو ایسا ہے جس کی بنیاد پر یہ سب کچھ ہوا۔۔!!
پاکستان میں شاید کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو کہ امریکی نومنتخب صدر کی ایک بیٹی پینتس سالہ ایونکا ٹرمپ خود کو ماڈرن یہودی آرٹھوڈکس مذہب سے منسلک قرار دیتی ہے جس کی بڑی وجہ شائد اس کا یہودی خاوند اور نیویارک کا ایک انتہائی متمول شخص جیرڈ کوری کوشنر Jared Corey Kushnerہے۔ کوشنر کا جنم نیوجرسی کے ایک انتہائی کٹر آرتھوڈکس یہودی خاندان میں ہوا تھا۔ کوشنرایک امریکی بزنس مین ہے، وہ ایک پراپرٹی کمپنی کے ساتھ ساتھ ایک میڈیا گروپ جس میں مشہور اخبار ”نیویارک آبزرور“ بھی شامل ہے کا مالک ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کوسیاسی مہم چلانے کا ماہربھی کہتا ہے۔کوشنر گروپ آف کمپنیز کا مالک یہ شخص امریکی نومنتخب صدر کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے ساتھ نیویارک کے انتہائی متمول علاقے ”بروکلین“ میں رہائش پذیر ہے۔اس لیے جب بعض پاکستان تجزیہ نگاروں نے نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کو امریکا کی صہیونی ریاست کا پہلا ”عیسائی صدر“ کہا تو خاصا تعجب ہواکیونکہ امریکا اور یورپ میں عیسائیت کی جو درگت بن چکی ہے اس کا سب کو اندازہ ہے جبکہ موصوف نومنتخب صدر ٹرمپ کٹر آرتھوڈکس یہودیوں کے سمدھی بھی ہیں اس لیے اس مختصر سے پس منظر کو جاننے کے بعد مزید تفصیل کی ضرورت نہیں رہتی کہ ہونے کیا جارہا ہے۔۔۔!!
جن آنے والے حالات کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ،موجودہ امریکی انتخابات ان اہم ترین حالات کی ایک اہم کڑی ہے۔اسے مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر قریبی تاریخ کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے۔ جس عالمی دجالیت کی ابتدا سترہویں صدی میں برطانیہ کے عالمی راج سے شروع ہوئی تھی اسے تاریخ میں ”پیکس برٹینیکا“Pax Britannica کا نام دیا جاتا ہے یہ دور اپنے مابعد ادوار میں سب سے زیادہ طویل دورتصور کیا جاتا ہے۔اس دجالی دور میں لندن دنیا پر حکمران دارالحکومت تھا، برطانوی کرنسی پاﺅنڈعالمی کرنسی تصور کی جاتی تھی، بینک آف انگلینڈ عالمی مالیات کا محور ومرکز تھا، لیگ آف نیشنز عالمی مصالحتی ادارے کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد پہلی اور دوسری عالمی جنگیں برپاکی گئیں جن کے دو بڑے مقاصد تھے ایک دجالی ریاست اسرائیل کا قیام اور دوسرا ”پیکس برٹینیکا“ سے عالمی حکمرانی کا اسٹیٹس ”پیکس امریکانو“ کی جانب منتقل کرنا تھا۔اس کام کی ابتدا اس انداز میں کی گئی کہ لندن جیسے عالمی دارالحکومت کو چھوڑ کر اسرائیل کے قیام کے لیے بالفور ڈکلریشن پہلی جنگ عظیم کے خاتمے یعنی 1917ءمیں نیویارک میں منظور کرایا گیاجو اس بات کی بڑی دلیل تھی کہ برطانیہ کے عالمی اسٹیٹس کو اب امریکا منتقل ہونا ہے ۔ دجالی نظام کا پہلا دن جو ”سال“ کے برابر کہا گیا وہ اب ختم ہونا تھا اور دوسرا دن جو ”ایک ماہ“ کے برابر ہے اس کی شروعات تھی۔ برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں پوری طرح لاغر کروا کر عالمی صہیونیت نے لندن کا عالمی اسٹیٹس واشنگٹن منتقل کروایا، پاﺅنڈ کی جگہ ڈالر نے لے لی، بینک آف انگلینڈ کی حیثیت اب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو حاصل ہوچکی تھی اور لیگ آف نیشنز کو یورپ میں تحلیل کروا کر 1945ءمیںنیویارک میں اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈال دی گئی جس کے پلیٹ فارم سے ٹھیک تین برس بعد یعنی 1948ءمیں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کروا کر عالم انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی بددیانتی کو قانونی شکل دلوانا تھی۔(یہ وہ دجالی دور ہے جس کا مدت دورانیہ استعارے کے طور پر ایک حدیث شریف میں”ایک ماہ“ کا بتایا گیا۔)
اب اس عالمی دجالی اقتدارکے انتقال کا تیسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے جو پیکس امریکانوPax Americana سے پیکس جوڈیکا Pax Judaica کی جانب راوں دواںہے اس دور کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کا دورانیہ استعارے کے طور پر ”ایک ہفتے“ کے برابر ہوگا یعنی ما قبل ادوار میں سب سے کم دور۔ یہ واشنگٹن سے عالمی اقتدار کا تاج یروشلم منتقل کرنے کا مرحلہ ہے۔اب اسے عالمی دجالی صہیونیت کہا جائے یا فری میسنری کہا جائے یا ایلومیناٹی کا نام دیا جائے ان سب کی منزل ایک ہے یعنی یروشلم (اسرائیل) کی عالمی حکمرانی کے دور کا آغاز۔ لیکن اس عالمی انتقال اقتدار سے پہلے کن چیزوں کا وقوع پذیر ہونا ضروری ہے؟ پہلے اس طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تقریبا نصف صدی قبل نیویارک میں ایک عالمی صہیونی ادارے کی تشکیل ”اقوام متحدہ“ کے نام سے کی گئی تھی اب اس کی افادیت تقریبا ختم ہوچکی ہے اس لیے اس ادارے کو بے وقعت کردینا، امریکا کی طاقتور ترین معیشت کو جنگوں میں جھونک کر ڈالر کو زوال پذیر کرنا، امریکا کی وحدت پر کاری ضرب لگاکر اسے یورپی یونین میں بریگزٹ کی شکل میںٹوٹ پھوٹ کی طرح ٹکڑوں میں تقسیم کردیناشامل ہے۔ امریکا سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی نقل مکانی ہے، دوسری جانب امریکا کو پہلے افغانستان اور اس کے بعد عراق اور شام کی جنگ میں الجھاکر اس کی معیشت کو داﺅ پر لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے تمام مشرق وسطی میں ایک طرح سے آگ لگا دی گئی ہے۔اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم واضح طور پر محسوس کر سکتے ہیں کہ مشرق وسطی میں تو ہر طرف جنگوں کی آگ بھڑکا دی گئی ہے اورماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ایک رسہ کشی کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے لیکن اسرائیل میں ہر طرح کا ”سکون“ ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ اسرائیل جو شورش زدہ مشرق وسطی میں چاروں طرف سے عرب ملکوں میں گھیرا ہوا ہے ،وہاں سب سے زیادہ تشویش اور بے چینی ہونی چاہئے لیکن وہاں حیرت انگیز طور پر سکون ہی سکون ہے۔۔۔!! ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی پر نیٹو اور یورپ بھی بری طرح تشویش میں مبتلا ہیں لیکن اسرائیلی انتظامیہ سکون سے تمام معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔۔۔!! یہ سکون آخر کون سے ”طوفان“ کا پیشہ خیمہ ہے۔۔۔؟
جو حلقے اس قسم کی رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جو انتہا پسندانہ بیانات دے کر امریکی قوم کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی تھی وہ درحقیقت انتخابی نعروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں اور وہ شاید وائٹ ہاﺅس میں آنے کے بعد اس پر عمل نہ کریں۔ !! لیکن اس حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر کی حیثیت ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں ہوتی اسے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو امریکا کی طاقتور صہیونی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے جہاں تک امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ پالیسی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے تو یہ صورتحال بھی جنوری کے بعد پوری طرح واضح ہوجائے گی کیونکہ اس دوران ٹرمپ اپنی کابینہ کا اعلان کرچکے ہوں گے جس میں وائٹ ہاﺅس کے چیف آف اسٹاف، امریکی نائب صدر اور سیکرٹری خارجہ اور سیکرٹری دفاع کی تعیناتی سب سے اہم ہوگی جو آنے والے حالات کے خدوخال سامنے لے آئے گی۔
ہمہ گیرعالمی تبدیلی کا محور چونکہ مشرق وسطی ہے اس لیے ڈونلڈٹرمپ کا پہلا موقف ہی جان لیا جائے جس میں انہوں نے واضح اعلان کردیا ہے کہ وہ شامی اپوزیشن کی مسلح امداد بند کردیں گے ان کا کہنا تھا کہ بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے کئی گروپوں کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کس کے ایما پر یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ شامی اپوزیشن کی مسلح مدد بند کردے۔اس بیان سے واضح ہے کہ مستقبل قریب میں ٹرمپ کا امریکا شام کو روس کی صوابدیدپر چھوڑکر خطے میں اسرائیل کے عالمی کردار کی جگہ بنانے لگا ہے۔ایران اور عربوں کو لڑاکر خطے میں پہلے ہی انتہا پسندی کے نام پر آگ لگ چکی ہے۔ امریکا کے پیچھے ہٹتے ہی اسرائیل اپنی سیکورٹی کا شور مچادے گااور اپنے دفاع کے نام پر وہ ایسے” اسٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیاروں“ کے ساتھ سامنے آئے گا جو نہ امریکا کے وہم وگمان میں ہیں اور نہ ہی روس اور چین کے۔یوں اپنے آپ کو انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے حملوں سے دفاع کے نام پر وہ مشرق وسطی کے تیل اور گیس کے ذخائر پر قابض ہوجائے گاجس کی اگلی جغرافیائی تقسیم کا نقشہ بہت پہلے تشکیل دیا جاچکا۔ اس سارے دجالی منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ روس اور چین اور اس کے بعد پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں۔ روس کا جواب دینے کے لیے پہلے ہی شمالی عراق اور شمالی شام میں داعش کی شکل میں بندوبست کیا گیا۔ پہلے اسے جان بوجھ کر شام اور عراق کے شمالی علاقوں پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کیا گیا اتنی قوت مہیا کی گئی کہ داعش کی عسکری قوت دمشق اور بغداد کے قریب پہنچ گئی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ کسی وقت بھی یہ تنظیم ان دونوں دارالحکومتوں پر قابض ہوجائے گی۔ شریعت کے نام پر داعش نے جس طرح دہشت کا بازار گرم کرکے عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھا وہ دنیا میں ہر ایک کا دل ہلادینے کے لیے کافی تھا اس سے دنیا کو خبردار کیا گیا کہ ”حقیقی اسلام“ ایسا ہوتا ہے جس سے دنیا کو بچنے کا بندوبست کرنا چاہئے ۔جب دنیا کے سامنے داعش کے نام سے ہونے والی بربریت رکھ دی گئی تو پھر بغداد اور دمشق پر ہاتھ رکھ دیا گیا اور صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور روس کے جنگی طیاروں کی فضائی مدد سے عراقی فوج شمالی عراق میں داخل ہورہی ہے جس میں سب سے زیادہ تقویت مقامی کرد عسکری تنظیموں کو حاصل ہے۔ یہ سب اسی مقصد کے لیے تھا کہ آنے والے وقت میں شمالی عراق اور شام، ترکی اور ایران کے کرد علاقوں پر مشتمل ایک آزاد کُرد ریاست تشکیل دے کر اس پر اسرائیل نواز حکومت بٹھا دی جائے اور یہاں پر ایسا میزائل انٹرسپٹنگ سسٹم نصب کیا جائے تو مستقبل قریب میں جب اسرائیل خطے کے توانائی کے ذخائر پر دفاع کے نام پر ہاتھ صاف کرے تو روس کی جانب سے میزائل حملوں کے ردعمل کو انٹرسپٹ(روکا) کیا جاسکے۔تیل اور گیس کی شکل میںتوانائی کی بندش کے مسئلے کو جب روس اور چین اقوام متحدہ میں لیکر جائیں تو ٹوٹے پھوٹے امریکاکی کانگریس میں موجود صہیونی نمائندے اقوام متحدہ کو سبز جھنڈی دکھا دیں کہ وہ نیویارک سے اپنا بوریہ بستر گول کرے۔
جہاں تک پاکستان کے حوالے سے اللہ کا کرم ہوا ہے ، جوہری ہتھیاروں کے بعد سی پیک کا منصوبے کی تکمیل ہے جس کی وجہ سے چین اپنے تجارتی مفادات کے لیے پاکستانی سیکورٹی کا ضامن بن چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد بلاواسطہ چین پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان میں افغان طالبان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد خطے میں یہ امریکا اور اس کے حواری ملکوں کی دوسری بڑی ہزیمت ہے۔یعنی جس مقصد کے لیے نائن الیون کا ڈراما کیا گیا اور افغانستان میں فوجیں اتارکر اور بھارت کو ساتھ ملاکر پاکستان کی جوہری صلاحیت کو ہتھیانے کے منصوبے بنائے گئے تھے وہ تقریبا خاک میں مل چکے۔اس کے بعد سی پیک منصوبے کے راستے میں سولہ برس تک جاری دہشت گردی کے نام پر آگ بچھا دی گئی لیکن جوہری صلاحیت کے بعد یہ دوسرا بڑا معجزہ ہوا کہ پاکستان ان نامساعد حالات کے باوجود سنکیانگ سے گوادر تک راہ داری بنانے میں کامیاب ہوگیاتو دوسری جانب روس سے قریبی روابط استوار ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ہم جب عالمی حکمران ریاست کے اسٹیٹس کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ ہوتا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر یہ ریاست اپنے فیصلے مسلط کردیتی ہے جیسا کہ ماضی میں لندن اور حال میں واشنگٹن کرتا ہے۔ یہی اسرائیل کی کوشش ہے کہ امریکا کو مستقبل میں نیٹو سے دستبردار کراکر وہ اس کی کمانڈ خود سنبھال لے یوں یورپ کو ساتھ ملا کر وہ دنیا پر اپنی بالادستی تھوپ سکے ۔ اس سلسلے میں کیا ہوتا ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس دجالی منصوبے کی تکمیل کے لیے امریکا میں ابتدا ہوچکی ہے۔۔ ۔!!
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں