مودی حکومت اور اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر مذہبی اقلیتوں پرحملوں کا باعث بن رہی ہیں۔ مسلمانوں کی املاک کی مسماری کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی ایک مثال دہلی میں ایک 6سو برس پرانی مسجد کی فروری میں بغیر کسی نوٹس کے مسماری ہے جس سے بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا۔ رپورٹ میں وقف ترمیمی بل 2024کا حوالہ بھی دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں کی وقف املاک پر قبضہ جمانا ہے۔ بھارتی حکومت تبدیلی مذہب کے قوانین، گائے کے ذبیحہ کے قوانین اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے مذہبی برادریوں پر جبر اور پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکام نے ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے جن میں مذہبی رہنما، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔
امریکی حکومت کے پینل نے بھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے اسے مذہبی اعتبار سے تشویشناک ترین ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ رواں سال ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بھارت بھر میں متعدد افراد قتل کیے گیے، لاتعداد مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور اقلیتی افراد کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔ بھارتی حکام کی نفرت انگیز تقاریر پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور انہیں مذہبی اور سماجی حقوق سے محروم کرنے کے لیے بھارتی قانونی فریم ورک میں تبدیلیوں اور نفاذ کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی امریکی حکومت کے پینل نے مذہبی آزادی کے حوالے سے بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکمرانی میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی میں مزید بدتر ہوگئی ہے۔
امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے تجاویز دی تھیں لیکن پالیسی نہیں بنائی اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھارت سے متعلق ان کے مؤقف کی تائید کریگا کیونکہ وہ امریکا کا ابھرتا ہوا شراکت دار ہے۔امریکا کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ہرسال ان ممالک کی فہرست جاری کرتا ہے جس میں مذہبی آزادی پر بہتری نہ ہونے پر پابندیوں کے امکان کے ساتھ مخصوص تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔آزاد کمیشن کے اراکین کا انتخاب صدر اور کانگریس کے پارٹی رہنما کرتے ہیں اور ان کی مکمل حمایت اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے اور کمیشن نے اس وقت چین، ایران، میانمار، پاکستان، روس اور سعودی عرب کا شامل کرلیا ہے۔کمیشن نے تجویز دی کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھارت، نائیجیریا اور ویت نام سمیت متعد ممالک کو شامل کرے۔سالانہ رپورٹ میں نشان دہی کی گئی کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اس حوالے سے مودی کی بھارتی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے بیانات کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
امریکی کمیشن کے سامنے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی، مذہبی عدم برداشت، اقلیتوں پر ظلم و جبر، میڈیا و انٹرنیٹ پر پابندی، جنسی تجارت اور انسانی حقوق سے متعلقہ دیگر سنگین خلاف ورزیوں پر شہادت دی۔کمیشن کو بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر مسائل کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتی سیکولر جمہوریت سے تبدیل کرکے اسے ہندوتوا بنانے کی کوشش ہے۔ اگر انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے مسائل کا حل نہ کیا گیا تو بھارت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 13 ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ متعدد رپورٹس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹس سے واضح ہے کہ بھارت میں مسلمان اور مسیحی کمیونٹی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)نے بھارت میں مذہبی آزادی کی مسلسل ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ خارجہ پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو ”خصوصی تشویش کا حامل ملک” قرار دے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے 2024کی اپنی سالانہ رپورٹ میں عام انتخابات کے دوران سرکردہ حکومتی رہنماو ں کی اشتعال انگیز بیان بازی کا حوالہ دیا ہے جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں برس جنوری سے مارچ تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 161 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 47 ریاست چھتیس گڑھ میں پیش آئے۔ اتر پردیش میں جون اور جولائی میں 20 عیسائیوں کو جبری تبدیلی مذہب کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ انتخابی نتائج کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے کم ازکم 28 واقعات درج ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عام انتخابات کے دوران سیاسی عہدیداروں نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور امتیازی بیانات میں تیزی لائی۔ مارچ میں اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے پارلیمانی انتخابات سے قبل مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور نفرت انگیز جرائم پر تشویش کا اظہار کیا تھاجس میں تشدد، ٹارگٹ کلنگ، املاک کو مسمار کرنا اور ہراساں کرنا شامل تھا۔