بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر پابندی
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف جہاں آئے روز متنازعہ فیصلے سامنے آ رہے ہیں، وہیں اب بھارتی ریاست اْتر پردیش کے شہر بنارس میں تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر گئی ہے اور اہلکاروں کی جانب سے اْتر پردیش کے شہر بنارس میں تبلیغی جماعت کے کارکنوں کا داخلہ روک دیا گیا ہے۔ کمشنریٹ پولیس نے شہر کی مساجد میں قیام کیے ہوئے تبلیغی جماعت کے ارکان کو نہ صرف مساجد سے باہر نکالا بلکہ انہیں بنارس سے باہر بھیجنے کے لیے ریلوے اسٹیشنوں کی طرف روانہ کردیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ تبلیغی جماعت کے ارکان کو دوبارہ بنارس نہ آنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ کمشنریٹ پولیس کی جانب سے مساجد کے ذمہ داروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انتباہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو روک دیں کیونکہ کوئی بھی پروگرام منعقد کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
بھارت اور پاکستان میں آباد تقریباً پینتالیس کروڑ مسلمان توجانتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی مسلم دشمن ہندو رہنما ہے۔پاکستان سے بھی اسے خدا واسطے کا بیر ہے۔مگر دنیا والوں کی اکثریت اس سچائی سے پوری طرح آگاہ نہیں تھی۔اس سال انتخابی مہم کے دوران مودی نے آخرکار راجھستان کے ایک عوامی جلسے میں اپنی اصلیت ، خباثت اور مسلم دشمنی سبھی اہل دنیا پہ آشکارا کر دی۔ یہ شاطر وعیار بھارتی لیڈر حقیقتاً مسلم دشمن ہے۔اور اس نے خوفناک طریقے اپنا کر بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔گویا مودی کی حمایت ومدد کرنا اس کے مسلم دشمن اقدامات کی توثیق کرنے کے مترادف ہو گا۔کیا پیسے اور مادہ پرستی کی خاطر کوئی مسلم راہنما مودی کی حمایت کر کے اپنے ایمان وضمیر کا سودا کر پائے گا؟وہ مودی جو ووٹ حاصل کرنے کے لیے انتہائی گھٹیا اور رکیک سطح تک بھی گر سکتا ہے۔ہم میں سے کئی نہیں جانتے کہ مودی کی مسلم دشمنی نے کیونکر جنم لیا؟ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ایک اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مودی کا تعلق غریب گجراتی ہندو گھرانے سے ہے۔اور جب مودی کا لڑکپن تھا تو گجرات میں کئی مسلمان کاروباری ہونے کے ناتے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔لہذا چائے بیچتا اور گلیوں میں پھرتا مودی یہ دیکھ کر جل بھن جاتا ہو گا کہ وہ تو ضروریات زندگی بھی نہیں خرید سکتا جبکہ کئی مسلمان یعنی غیر ہندو آرام وآسائش کی زندگی گذار رہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے، جب وزیراعلی مودی کی زیرقیادت ریاست گجرات میں کٹر ہندوؤں نے 2002ء میں وسیع پیمانے پر گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کیا تو انھوں نے احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی کو خاص طور پہ نشانہ بنایا جہاں بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان رہتے تھے۔بلوائیوں نے پوری سوسائٹی جلا ڈالی اور بچوں و خواتین تک کو شہید کر ڈالا۔
مودی لڑکپن میں انتہاپسند ہندو جماعت، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا رکن بن گیا تھا۔اس تنظیم کے سبھی راہنما اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے اور انھیں ہندو عوام کے مصائب ومشکلات کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔اس نفرت انگیز پروپیگنڈے نے بھی نوجوان ہوتے مودی کو مسلم دشمن بنا دیا۔چناں چہ وہ بابری مسجد کے خلاف انتہاپسندوں کی تحریک میں پیش پیش رہا۔تاہم اس نے کھلم کھلا کبھی اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا۔بلکہ وہ مسلمانوں کی تقریبات میں جا کر ایسی باتیں کہہ دیتا جو اسے مسلم دشمن ثابت نہیں کرتی تھیں۔مودی مگر تب بھی مسلم دشمن تھا۔وجہ یہ ہے کہ اسی مسلم دشمنی نے سنگھ پریوار (انتہا پسند ہندؤںکی جماعتوں )کو بھارت میں مقبول بنایا۔1980ء تک سنگھ پریوار الیکشنوں میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی۔اس کے بعد 1984ء سے انھوں نے رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک شروع کر دی۔اسی تحریک نے خصوصاً سنگھ پریوار کے سیاسی روپ، بی جے پی کو بھارت بھر میں مشہور کر دیا اور وہ بتدریج قومی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھانے لگی۔گویا سنگھ پریوار کی مسلم دشمنی نے اسے ہندو عوام میں مقبول بنا دیا۔اسی لیے بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کی تمام جماعتیں ہر الیکشن کے موقع پہ اپنی مسلم دشمنی عیاں کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع تلاش کر لیتی ہیں۔
حالیہ الیکشن سے قبل مودی کو بھی اس امر کا احساس ہو چکا تھا کہ کروڑوں بھارتی اس کی حکومت سے ناراض ہیں۔لہذا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ووٹ نہ دیں۔جبکہ مودی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا خواہش مند تھا۔وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے بھارتی آئین میں حسب ِ دل خواہ تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا۔اس کی منزل یہ ہے کہ بھارت کو سرکاری طور پہ ہندو ریاست بنا دیا جائے۔فی الوقت بھارت کا آئین اسے سیکولر ریاست قرار دیتا ہے ، یعنی ایسی مملکت جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں۔اسی لیے مودی کی ہدایت پر بی جے پی کے وزیر، مشیر، ارکان اسمبلی، امیدوار اور لیڈر عوامی جلسوں میں اپنے مذہبی کارناموں کے گن گانے لگے۔انھوں نے رام مندر کی تعمیر کا خاص طور پہ ذکر کیا جو بابری مسجد شہید کر کے بنایا گیا ہے۔انھوں نے اس کی تعمیر کو اپنا بہترین کارنامہ قرار دیا اور ہندو ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ رام مندر بنانے والوں کو ہی اقتدار میں لائیں۔