میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسمگلروں اور چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

اسمگلروں اور چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۵ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ملک کی معیشت اور سیاست کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال میں چند روز قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں اور چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔ نیوز چینلز نے بھی اپنے نیوز بلیٹن میں اس خبر کو نمایاں طور پر پیش کیا جس میں یہاں تک بتایا گیا کہ حکومت نے ان کاموں میں ملوث اور سہولت کار سرکاری ملازمین اور افسران کی فہرستیں تیار کرلی ہیں اور ان سب کے خلاف تمام متعلقہ ادارے ایکشن میں آچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق آرمی چیف کی جانب سے متعلقہ کور کمانڈرز کو ہدایات دی گئی ہیں کہ فوری طور پر پیٹرول اور دوسری اشیا کی ایران اور افغانستان سے ا سمگلنگ کو روکا جائے، ڈالر مافیا جو روپیہ کی بے قدری کا باعث بن رہا ہے اُس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، پلاٹوں پر قبضہ کرنے والے مافیا کو ختم جائے، کراچی میں ”سسٹم“ جو وہاں کرپشن مافیا چلا رہا ہے اُسے کچلا جائے۔ان احکامات کے نتیجے میں چند دن کے اندر ہی اوپن مارکیٹ میں ڈالر اور سونے کی قیمت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔نگران حکومت کو سہارا دینے کیلئے آرمی چیف نے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے ملکی معیشت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے کیوں کہ اس وقت ملک کی معیشت کی جو دگرگوں حالت ہے اس میں یہی عوامل کارفرما ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بجلی چوری آج کا واقعہ نہیں۔ حکومت کے مطابق سالانہ 589 ارب کی بجلی چوری کی جاتی ہے اور یہ ساری رقم ان لوگوں کے بلوں میں ڈال دی جاتی ہے جو چوری بھی نہیں کرتے اور اپنا بل بھی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کو سراہنے کے بجائے ان گناہوں کی سزا بھی دی جاری ہے جن کے وہ ذمے دار ہی نہیں۔ اسی طرح مختلف اداروں کے چھوٹے بڑے ملازمین کو دی جانے والی مفت بجلی بھی عام لوگوں کے بلوں پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے۔لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ ایسے اعلانات تو کئی بار پہلے بھی ہوچکے ہیں، آپریشنز شروع بھی کیے گئے مگر عملی طور پر کسی کو بھی حتمی نتائج تک نہ پہنچایا جاسکا۔ کبھی سیاست آڑے آگئی، کبھی سرکاری افسران اور کبھی عدالتیں، الغرض اس ملک کے عوام نے کبھی کسی کرپٹ افسر یا سیاستداں کو عدالتوں سے سزاؤں کے بعد داخل زنداں ہوتے نہیں دیکھا۔پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اتنی کوششیں ہوچکی ہیں کہ لوگوں کو یاد ہی نہیں کتنی مرتبہ یہ اعلان ہوچکا ہے کہ بدعنوان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ایوب خان نے جب 27 /اکتوبر 1958ء کو مارشل لالگایا تو فوری طور پر بدعنون سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کے احتساب کا اعلان کیا گیا۔ سیاستدانوں کیلئے’ایبڈو‘ کے نام سے قانون بنایا گیا اور ان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی،ساتھ ہی کرپٹ عناصر،سرکاری افسران کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی اور سیکڑوں ایسے افسران کو برطرف کردیا گیا جن پر رشوت خوری اور لوٹ مار کے الزامات تھے۔ جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969 میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے بدعنوان افسروں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ بھٹوصاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد سیکڑوں بیورو کریٹس کے خلاف ایکشن لیا۔ بھٹو کے مخالفین نے الزام لگایا کہ زیر عتاب آنے والے افسر دراصل وہ تھے جو ایوب خان کے دست راست اور بھٹو کے مخالف تھے، ضیاالحق نے پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اور ان سرکاری افسران کے احتساب کا اعلان کیا جن پر ملکی خزانے کو لوٹنے کا الزام تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی بدعنوانیوں کے بارے میں ایک ”وائٹ پیپر“ بھی شائع کیا گیا تھا۔ ملک میں امپورٹڈ وزیراعظم معین قریشی کے دورمیں بڑے بڑے قرضے معاف کرانے والوں کی باقاعدہ فہرستیں شائع کی گئی تھیں اور ان سب سے سرکاری رقوم کی پائی پائی وصول کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، لیکن ہوا کیا سب جانتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002میں احتساب کا ایک اور نظام ”نیشنل اکاؤنٹیبیلٹی“ کے نام سے متعارف کرایا۔ اس نظام کے تحت قومی احتساب بیورو قائم یا گیا۔کئی سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اور بزنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے گرفتار بھی ہوئے۔ شروع میں ”نیب“ کی کارروائیوں سے کرپٹ افسر خوف زدہ تھے۔ انہوں نے رشوت سے لی گئی گاڑیاں بھی چھپادی تھیں اور سادہ لباس پہننا شروع کر دیا لیکن 6ماہ بعد جب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ احتساب بھی ماضی میں ہونے والے احتساب کی طرح برائے نام ہی ہے تو وہ اپنی پرانی ”ڈگر“ پر چلنے لگے۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں شامل سیاستدانوں نے جو (ن) لیگ اور دوسری پارٹیوں سے آکر کنگز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ ”نیب“ کے ذریعے گرفتار ہونے والوں کوآہستہ آہستہ چھڑانا شروع کر دیا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ان ٹیکس اور ڈیوٹی چوروں کو یہ کہہ کر رہا کرتے رہے کہ بزنس کمیونٹی احتساب سے پریشان ہے اور انہیں سرمایہ کسی اور ملک منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف ڈر گئے اور کئی بڑے چور چھوڑ دیے گئے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہی احتساب کا عمل سبوتاژ ہونا شروع ہوگیا تھااور وہ مگر مچھ جن کے پیٹوں میں قوم کے سرمائے کے اربوں روپے تھے وہ سب احتساب کا مذاق اڑانے لگے۔اب جب موجودہ نگراں حکومت کے دور میں بجلی کے آسمان تک پہنچے ہوئے نرخوں پر جب عوامی ردعمل سامنے آیا تو بجلی چوروں،ڈالر کے اسمگلروں،ذخیرہ اندوزوں،گندم اور چینی ذخیرہ کرنے اور اسمگل کرنے والوں کے خلاف ”ڈنڈا“ استعمال کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے عوام مشاہدہ کررہے ہیں کہ بجلی چوروں اور ان کے سرپرستوں،گندم اور ڈالر ذخیرہ کرنے اورا سمگل کرنے والوں کے خلاف ایکشن ہوگا اور بڑے مگر مچھوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے گا لیکن ابھی تک کسی بڑے سیاستداں یا تاجر کی گرفتاری کی خبر سامنے نہیں آ سکی ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے اب تک صرف چھوٹے چوروں کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔گھریلو سطح پر بجلی چوروں یا چھوٹے کاروباری مراکز کے بارے میں ہی سوچا جارہا ہے۔بجلی کی تقسیم اور ریکوری کرنے والی کمپنیوں کے سینکڑوں افسروں کے تبادلے ہورہے ہیں لیکن ان کے خلاف کسی طرح کی ایسی کوئی انضباطی کارروائی نہیں کی گئی جس سے یہ پتہ چل سکے کے کرپٹ افسران واقعی اب شکنجے میں لائے جارہے ہیں۔کس افسرنے کتنی بجلی چوری کرائی اور کتنے اثاثے بنائے اس بارے میں مکمل خاموشی ہے۔وہ افسر جن کے دائرہ اختیار میں فیکٹریاں، کمرشل ایریاز میں بجلی کی اربوں روپے کی چوری تو وہاں ہوتی ہے۔ ابھی تک ان افسران سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ان کے اثاثوں اور بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں کوئی تذکرہ تک نہیں ہورہابدعنوانی کے خاتمے کی کوئی بھی کوشش ماضی میں کامیاب نہیں ہوپائی۔ اس لیے چور اور چوکیدارایک دوسرے سے مل جاتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ ملک اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں ہماری عزت اور وقار خاک میں مل چکا ہے۔چوری اور بدعنوانی ختم کرنے کیلئے ماضی کے مذاق کا اعادہ کرنا ہے تو بہتر ہے کہ اس قصے کویہیں تمام کردیاجائے۔لوگوں کے جذبات سے مزید نہ کھیلا جائے۔ اس طرح کی غیر سنجیدہ کوششوں سے چور لٹیرے مزید تگڑے ہوتے ہیں۔ اب تو پانی سر سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے ذمہ دار افراد کی کرپشن کے چرچے بین الاقوامی میڈیا میں ہورہے ہیں۔ اگر اب بھی بڑے چوروں کو نہ پکڑا گیا تو ملک کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔نگران حکومت کے پاس اگرچہ منتخب حکومت کے مقابلے میں بہت کم اختیار ہوتے ہیں اور ان کی مدت اقتدار بھی کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے طویل المدتی اقدامات نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی لیکن جو بات انھیں منتخب حکومت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ انہیں لوگوں سے ووٹ نہیں لینے ہوتے جن کے چھن جانے کا خوف ہو جس کی وجہ سے وہ کھل کر کام کرسکتی ہیں لیکن موجودہ نگراں حکومت نے اب تک خود شہباز حکومت کی بھی ٹیم ثابت کیا ہے جس کی وجہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں لوگوں کا اس نگراں حکومت پر سے بھی اعتماد ختم ہونا شروع ہوگیا ہے، موجودہ نگراں وزیراعظم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کیلئے داخلی طور پر ایک بڑا مسئلہ خراب گورنس کا ہے جس کی اصل ذمہ دار کرپٹ اور غیر فعال بیورو کریسی ہے جس کا قبلہ دُرست کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔جب تک بیوروکریسی کو اپنا قبلہ درست کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا کسی بھی شعبے میں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں