میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ کی آزادی کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے ،چیف جسٹس

عدلیہ کی آزادی کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے ،چیف جسٹس

ویب ڈیسک
منگل, ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے نئے سال کیلئے عدالتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کی مکمل خودمختاری کے بغیر عوام کو انصاف کی مکمل فراہمی کا تحفظ ممکن نہیں،آئین اور قانون کے تحت عدلیہ کی آزادی کسی کو دبانے کی اجازت نہیں،تمام ججز آئین اور قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے ہیں،سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کیلئے ہرممکن اقدام کریگی۔وہ پیر کو نئے عدالتی سال 2020-21 کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ انہوںنے کہاکہ نئی عدالتی سال کی تقریب ہمارے گزشتہ سال کی کارکردگی کو چانچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ جج ہونا صرف اعزاز نہیں بلکہ انصاف دینے کی بھاری ذمہ داری ہے، ہر جج انصاف کرنے کا پابند ہے، آئین کا دیباچہ عدلیہ کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ انصاف نہ صرف ہر مہذب معاشرے کی بنیاد ہے بلکہ قرآن و سنت کے مطابق اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے جس کا تصور قرآن و سنت میں دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف صرف قانون کے مطابق عوام کے حقوق کا تعین نہیں بلکہ قانون کے سامنے مساوات یقینی بنانا ہے، قانون کے تحت رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے ہمارا آئین قانون میں مساوات اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ انصاف اس وقت تک نہیں فراہم نہیں کیا جاسکتا اور عوام کے بنیادی حقوق اس وقت تک محفوظ نہیں بنائے جاسکتے جب تک ججز مکمل آزاد اور کسی بیرونی دباؤ کے زیر اثر نہ ہوں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آئین عدلیہ کی آزادی کو مکمل طور محفوظ بنانے کا حکم دیتا ہے، آئین و قانون کے تحت کسی کو عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کیسز ختم ہونے میں تاخیر کا سبب مؤخر کرنا ہے اور اس کی ایک وجہ اسلام آباد کی عدالتوں میں وکیلوں کا اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر نہ پہنچنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے پر قابو پانے اور اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے کیسز کی سماعت ای کورٹ کے ذریعے کی گئی، ابتدا میں ویڈیو لنک کی سہولت صرف کراچی رجسٹری میں تھی جسے تمام برانچ رجسٹری تک توسیع دے دی گئی ہے۔کیس کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز کے وقت عدالت میں 42 ہزار 138 کیسز زیر التوا تھے اور کووِڈ 19 کی وبا سے قبل مزید 8 ہزار 817 نئے کیسز داخل کیے گئے جبکہ 6 ہزار 752 کیسز میں فیصلہ ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ کووِڈ وبا کے بعد 7 ہزار 46 کیسز دائر کیے گئے جبکہ 5 ہزار 792 کیسز کا فیصلہ ہوا اور عدالتی سال کا اختتام 45 ہزار 455 زیر التوا کیسز کے ساتھ ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ طویل قانونی چارہ جوئی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے پاکستان بھر میں ماڈل کورٹس قائم کی گئیں جنہوں نے برسوں کے بجائے چند ماہ میں کرمنل اور سول کیسز کے ٹرائلز کیے اور انہیں نمٹایا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں