میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت اور شیوسینا کے درمیان تنازع،پاکستان ، آزاد کشمیر ، مسلمان نشانا

بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت اور شیوسینا کے درمیان تنازع،پاکستان ، آزاد کشمیر ، مسلمان نشانا

ویب ڈیسک
منگل, ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰

بالی ووڈ اداکارہ ان دنوں مختلف تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ وہ براہ راست مہاراشٹر حکومت کے سامنے کھڑی ہے۔

شیئر کریں

بالی ووڈ اداکارہ ان دنوں مختلف تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ وہ براہ راست مہاراشٹر حکومت کے سامنے کھڑی ہے۔ مگر یہ کوئی سادہ جنگ نہیں۔ یہ خالص ہندو ذہنیت کے ساتھ مسلمانوں کو نشانے پر رکھ کر دونوں اطراف سے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں بظاہر دونوں ہی ایک دوسرے کو نشانا بنارہے ہیں، مگر عملاً یہ ہندوؤں کے درمیان کس کے زیادہ ہندو ہونے اور ملک سے زیادہ وفاداری کی حالت میں مسلمانوں کے زیادہ مخالف ہونے کا مقابلہ ہے۔ اس تنازع سے ہندؤں کی نہ صرف تنگ ذہنیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ وہ پیچیدہ فطرت بھی آشکار ہوتی ہے جس میں یہ ایک دوسرے کے جتنے بھی خلاف ہو مگر عملاً مسلمانوں کو ہی اپنا اصل ہدف رکھتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ ذہنیت اپنے عملی مظاہر کے ساتھ بے نقاب ہوگئی تھی جس کے بعد مسلمانوں پریہ واضح ہو گیا تھا کہ ہندؤں کے ساتھ کسی صورت نباہ ممکن نہیں۔ کنگنا رناوت اور شیوسینا کے حالیہ تنازع میں بھی یہی ذہنیت پوری طرح آشکار ہوتی ہے۔
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت کاشیوسینا کے ساتھ تنازع اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے ممبئی کاموازنہ ’’پی او کے ‘‘(پاکستان کے آزاد کشمیر) سے کر تے ہوئے کہا تھا وہ شہر میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔اس پر شیوسینا ترجمان سنجے راوت نے کنگنا کو ممبئی واپس نہ آنے کا مشورہ دیا تھا۔کنگنا رناوت کی جانب سے ممبئی کو’’ پی او کے‘‘ کی تشبیہ دیے جانے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں سے کوئی ہمدردی رکھتی تھی، وہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں اور پاکستان کو بھی کسی نہ کسی بہانے سے نشانا بناتی رہتی ہے۔ مثلاً کنگنا رناوت نے ممبئی کو ’’پی او کے ‘‘کہنے کے علاوہ بالی ووڈ کے مسلم اداکاروں کو بھی نشانا بناتے ہوئے ایک فرقہ وارانہ تعصب ابھارنے کے علاوہ بھارتیوں کے مزاج کے عین مطابق قومی تعصب بھی بیدار کیا۔ کنگنا رناوت نے کہا کہ مسلمانوں کے غلبے والی انڈسٹری میں انہوں نے مہاراشٹر کے افتخارکو نمایاں کرنے والی فلمیں بنائیں۔ ظاہر ہے کہ کنگنا نے یہ بات اپنے حوالے سے شیوسینا کو اس کے موقف پر نظرثانی کے لیے کہی تھی کیونکہ ایک بھگوا پارٹی ’’مسلمانوں کے خلاف تعصب ‘‘سے ہی سے متوجہ ہوسکتی تھی ۔ اب دیکھیے بات تو شروع ہوئی تھی، پی او کے سے مگر یہ معاملہ فلمی صنعت میں مسلم اداکاروں کی بالادستی تک پہنچ گیا۔ بعدازاں کنگنا کے پالی ہل پر واقع غیر قانونی دفتر کا معاملہ اچانک اُبھر کر سامنے آیا۔جس پر برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن ( بی ایم سی) کی کارروائی سرخیوں میں آئی ۔ ان تمام کارروائیوں کے باوجود کنگنا اس وقت بھی مسلم مخالف بیماری میں مبتلا نظر آئی۔ کنگنا نے ہندو تعصب کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے بجائے اس موقع پر اپنے دفتر کو ’’رام مندر‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اسے منہدم کرنے والی بی ایم سی کو مغل حکمران ’’بابر ‘‘قرار دیا۔
دوسری طرف شیوسینا کے پارٹی ترجمان سنجے راوت نے ممبئی کو’’پی او کے ‘‘کہے جانے کے جواب میں کنگنا رناوت ہی کو نشانابناتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ کیا انہیں احمد آباد ’’منی پاکستان ‘‘نظر نہیں آتا؟ دیکھیے بات کہاں سے شروع ہوکر کہاں جا پہنچتی ہے ۔ شیوسینا ترجمان یہیں نہیں رُکے ۔انہوں نے کنگنا کی زبان سے یہ سنا کہ ان کے دفتر پر انہدامی کارروائی کرنے والی’’ بی ایم سی‘‘ بابر ہے تواس نام سے ہی اُن کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوںنے وہ بات کہہ ڈالی جس پر وہ ہمیشہ سے فخر کرتے آئے ہیں۔انہوں نے کنگنا کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ شیوسینا نے ہی بابری مسجد مسمارکی تھی ۔شیوسینا اور کنگناکے ایک دوسرے کو نشانا بنانے کی اس پوری مشق کا تجزیہ کریں تو دونوں ایک دوسرے کو کاندھا دیتے ہوئے دراصل مسلمانوں کو نشانا بناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ دونوں کامقصد کیا ہے ؟دونوں آخر چاہتے کیا ہیں؟
کنگنا کابالی ووڈ کومسلمانوں کے غلبے والی انڈسٹری قرار دینے اورممبئی کو پی او کے کہنے کامقصدہی یہاں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ فضاہموار کرنا تھا۔کنگنا نے جب خود کو ایک زبردست سیاسی ہنگامہ میں گھرتا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے بڑی آسانی سے معاملے کو اس رخ پر موڑ دیا جومسلمانوںکے خلاف متعصبانہ ذہنیت کی طرف جاتا ہے ۔انہیں یقین تھاکہ یہاں انہیںدائیں بازو کے ہندو انتہا پسندوں اور بھگوا نوازوں کی زبر دست حمایت ملے گی ۔ انہیںمہاراشٹر میںبرسراقتدار جماعت کا بھی خوف محسوس نہیں ہواجس کی اتحادی خود ایک بھگوا پارٹی ہے ۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے اس سے بڑے بھگوا بریگیڈ کو پایاجو ہندوستان بھر میں’’ زعفرانیت ‘‘ کی لہر کو کنٹرول کررہا ہے ۔ کنگنامہاراشٹر حکومت ( جس کا سربراہ ٹھاکرے خاندان کا سپوت ہے )کے خلاف تاک تاک کر نشانا لیتی رہی،کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ شیوسینا اور مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ وہ بھارت کی موجودہ فضا کو خوب خوب پہچان گئی کہ اس وقت جو بھی بی جے پی کے نظریے کا حامی ہے وہی وطن پرست ہے، دیش بھگت ہے، اسی نام پر لوگ اُن کے حامی ہوں گے۔
شیوسینا کا معاملہ بھی کنگناسے کچھ مختلف نہیں ہے ۔ اس نے سیاسی فائدے کیلئے وہی کچھ کیا جو کنگنا نے کیا۔کنگنا نے بابراور رام مند ر کی بات نکالی توسنجے راوت نے بابری مسجد کی شہادت میں شیوسینا کے کردار کوفخریہ انداز میں بیان کیا۔ کنگنا نے پاکستان کے زیر انتظام ’’آزادکشمیر‘‘کے حوالے سے ان ہی غریب مسلمانوں کونشانا بنایا جس کے نام پر سنجے راوت نے احمد آبادکو’’منی پاکستان ‘‘ قرار دے دیا۔ کنگنا نے ذاتی حمایت حاصل کرنے کیلئے بالواسطہ مسلمانوں کو نشانے پر رکھ کر بھگوا کا رڈ کھیلا توشیوسینا نے بھی سیاسی حمایت کیلئے بالواسطہ مسلمانوں کو نشانے پررکھ کربھگوا تیر ہی چلائے ۔
بھارتی مسلمان پاکستان اور کشمیر کا معاملہ بالکل الگ رکھتے ہیں ۔ بھارت کے تمام حصوں میں بسنے والے مسلمان ان معاملات پر براہ راست کوئی بات کرنے سے مکمل گریز کرتے ہیں۔ لیکن مذکورہ دونوں موضوعات پربھارت بھرکے مسلمانوں کو نشانا بنانے کی مذموم روایت مسلسل جاری ہے ۔ کنگنا رناوت اور شیوسینا کے اس پورے تنازع میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے ۔یہاں صرف ایک بات کا بتنگڑ ہی نہیں بنایا گیابلکہ بات نکال کر اسے تعصب اور مسلم دشمنی کی حد تک کھینچا گیا۔ تاریخ کو کریدا گیا۔ایک ایسے معاملے کو جس پر ملک کی سب سے بڑی عدالت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے ، غیر ضروری طورپر زیربحث لا یاگیا۔ اگر سادھوسنت اعتراض کرنا چاہیںتو کنگنا رناوت کے اپنے دفتر کورام مندر سے تعبیر کرنے پر شدید اعتراض کرسکتے ہیں بلکہ دائیں بازوکے انتہاپسند بھی اس پرایک نیا بکھیڑا کھڑا کرسکتے ہیں لیکن دیکھا اور محسوس کیاجارہا ہے معاملہ کس رخ پر چل رہا ہے اور اسے کس رخ پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جب تک معاملے میں بالواسطہ طورپر مسلمان نشانے پر ہے ،کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ کنگنا اور شیوسینا کے معاملے میں بھی اب تک بات دونوں کے ارد گرد ہی گھوم رہی ہے اور دونوں ہی لفظ مسلم کو نشانے پر رکھ کر بات کو اپنے ارد گرد رکھنے کی ہی پابندی کررہے ہیں۔اس سے دونوں کو بظاہر کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ معاملہ ابھی کچھ دنوں میں ختم ہوجائے گا اوراس پر اُٹھنے والی آوازیں خاموش ہوجائیں گی لیکن اس بات کی ضمانت شاید کوئی نہیں دے سکتا کہ آئندہ اسی طرح کا کوئی معاملہ اٹھے جس میں دوفریق ایک دوسرے پرلفظی حملہ کریں اورکشمیر، پاکستان کے نام پربھارتی مسلمانوں کو نشانے پر نہ رکھا جائے ۔
کنگنا رناوت اور شیوسینا کا تنازع ایسا ہے کہ ا س میںدر اصل دونوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ہے ۔وہ بھی صرف کسی کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اور کسی مفاد کی خاطر۔ اس معاملے کے سرد خانے میں جانے کے بعد بھی اس کے ذریعے بھڑکائے گئے شعلے برقرار رہیں گے۔ بھارت میں یہ کھیل مسلسل جاری ہے ۔کبھی مفاد پرست سیاستدانوں کے ذریعے ،کبھی سنکی فنکاروںکے ذریعے اور کبھی بکاؤ صحافیوں کے ذریعے ۔بھارتی مسلمانو ں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ تاریخ کے انتہائی نازک موڑ سے گزررہے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں