میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سب ممکن ہے!

سب ممکن ہے!

منتظم
هفته, ۱۵ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

جرائم کی دنیا میں مجرم نت نئے راستے یوں توتلاش کر ہی لیتے ہیں، وہیں ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ ہر مجرم اپنے جرم کی ایک نشانی ضرور چھوڑتا ہے۔ یہ تحقیق اور تفتیش کرنے والے پر ہے کہ اس کی نگاہیں اس نشانی تک پہنچتی ہیں یا نہیں۔ اورچمک اس جانب دیکھنے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔خصوصاً قتل اور کرپشن ایسے جرائم ہیں جو چھپائے نہیں چھپتے۔ انسان اپنے ان جرائم کو چھپانے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن اختیار کرتا ہے۔ انسانی جان رب کائنات کی امانت ہے ،چنانچہ اس امانت کو ناجائز چھیننے والی کی گرفت کرنا بھی اُسی کا بندوبست ہے۔ وہ ہرقاتل سے کوئی نا کوئی ایسی غلطی کرا دیتا ہے کہ قاتل بہرحال بے نقاب ہو کر ہی رہتا ہے۔ قتل تو ایک فرد کا ہوتا ہے اور کرپشن کے نتیجہ میں ہونے والی بداعمالیوں سے انگنت انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ یہ قتل عمد سے بھی بڑا جرم ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے قتل عمد کے پیچھے کوئی ایسا قضیہ موجود ہو جو قاتل کو اس انتہائی اقدام پر اُکسا رہا ہولیکن کرپشن کے پیچھے ایسی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور کرپشن ہوس اور حرس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یوں اس کے نتیجہ میں ضائع ہونے والی جانوں کا قصاص لینا بھی واجب ہے ۔
پاناما کا پاجاما کیا کھلا پوری دنیا میں بھونچال آ گیا۔ کئی حکمرانوں نے اس اسکینڈل میں نام آنے کے بعدجمہوری رویہ اختیار کیا اور استعفیٰ دے کر تحقیقات کا راستا اختیار کیا تو کچھ حکمران ایسے بھی تھے جنہیں عوام نے اپنے احتجاج کے ذریعہ اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کیا اب تک ہونے والی تحقیقات میں کسی بھی حکمران کواس معاملے میں کلین چٹ نہیں ملی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا نام بھی اس بہتی گنگا میں شامل ہے لیکن یہاں نہ جمہوری اقدار کا لحاظ ہے نہ قانونی کارروائی کے بعد ذمہ داری قبول کرنے کا احساس ۔
جب پاناما کا معاملہ اُٹھا تو اپریل 2016میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بہت فخر سے کہا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے۔ ان پر اور ان کے خاندان پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس ایوان میں ( جس کے تقدس کی دہائی دیتے دیتے وہ تھکتے نہیں) یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو وہ گھر چلے جائیں گے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد حتمی فیصلہ دینے سے قبل مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کوحکم دیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ منقسم تھا دو ججز کی رائے میں نواز شریف کا دامن داغ دار تھا تو تین کے خیال میں وہ دھبے مزید تحقیق میں دُھل بھی سکتے تھے لیکن اس کرپشن کے نتیجہ میں بننے والی جعلی ادویات ،اسپتالوں کے ناقص آلات ،بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اس کے نتیجہ میں بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی کرنے والوں کا قتل تو ان کرپٹ عناصر کے سر ہی تھا ،جنہوں نے یہ حالات پیدا کیے تھے۔ اسلام آباد میں ایک صاحب پائے جاتے ہیں جو میاں نواز شریف کے بہت قریب ہیں اگرچہ ان کی ایسی قربت جنرل پرویز مشرف سے بھی تھی۔ اس قربت کی وجہ نواز شریف یا پرویز مشرف سے محبت نہیں ،ایفی ڈرین کا وہ کیس ہے کہ جس کے نتیجہ میں اُنہیں پھندا سامنے نظر آرہا ہے۔ اب محمد حنیف عباسی بھی اقتدار کی گھنی چھاؤں میں نہ جائیں تو کہاں جائیں؟ کیا اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ میں چکی پیسیں کہ اس کی فیکٹری کی بنی ہوئی جعلی اور غیر معیاری ادویات سے نامعلوم کتنے افراد صحت کے بجائے موت پا گئے۔ اب ان بے گناہوں کا خون تو رنگ لانا ہے اللہ کے نبی ﷺ کا فرما ن ہے اگر غیرمستند معالج کے علاج سے کوئی شخص جان کی بازی ہارتا ہے تو اس غیرمستند معالج پر قصاص واجب ہے۔ کیا یہ اُصول جعلی ادویات بنانے والے پرلاگو نہیں ہوتا اس پر علمائے کرام ،مفتی عظام اپنی قیمتی رائے سے آگاہ فرمائیں ۔حنیف عباسی پر ایک لطیفہ صادق آتا ہے۔ ایک سیاستدان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ جناب آپ پارٹیاں بہت بدلتے ہیں موصوف نے جواب دیا کہ بھائی میری تو ایک ہی پارٹی ہے حکمران پارٹی اب اگر حکمران پارٹیاں بدلتی ہیںتو میں تو حکمران پارٹی میں ہی رہوں گا ۔
جیسا کہ ابتداء میں لکھا ہے کہ ہر مجرم اپنے جرم کی ایک نشانی چھوڑ دیتا ہے اور بزرگ کہتے ہیں کہ نقل کے لیے عقل کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ورنہ نقل چیخ چیخ کر بتا رہی ہوتی ہے کہ وہ اصل نہیں ہے ۔یوں تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے تمام افراد نے باہر آ کر جو جو بڑھکیں ماری تھیں ان بڑھکوں نے تو سلطان راہی اور مصطفے قریشی کی فلمی بڑھکوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جے آئی ٹی نے موصوف سے نہیں موصوف نے جے آئی ٹی سے پوچھ گچھ کی ہے اور جے آئی ٹی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔خصوصاً سمدھی اسحاق ڈار کی چیخیں تو بہت ہی بلند تھیں۔ ان چیخوں کے نتیجہ میں مسلم لیگی بہت خوش تھے کہ میاں صاحب کوکلین چٹ نہیں بلکہ کاغذ کی کلین ناختم ہونے والی کتاب مل جائے گی لیکن ہر آرزو پوری نہیں ہوا کرتی ۔
جب مریم نواز پیش ہوئیں تو ان کے انداز سے نہیں لگتا تھا کہ وہ اپنے مبینہ جرائم کی جوابدہی کے لیے جارہی ہیں۔بلکہ ایسا محسوس ہوتا رہا کہ رانی نے قلعہ فتح کر لیا ہے جس کے معائنہ کے لیے محترمہ تشریف لے جا رہی ہیں۔ نفسیات کا ایک اُصول ہے کہ جھوٹے کی یادداشت کمزور ہوتی ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا بولا تھا اور اب کیا بول رہا ہے ۔پہلے کس رنگ کی ٹوپی پہنائی تھی، اب کسی رنگ کی ٹوپی پہنا رہا ہے۔ یوں ٹوپی کا رنگ اسے پکڑا سکتا ہے۔ اب مریم کے ساتھ یوں ہوا انہوںنے بہت پر اعتماد انداز میں کہا تھا کہ ان کے نام پوری دنیا میں کوئی جائیداد نہیں ہے اور وہ حسن نواز اور حسین نواز کی ٹرسٹ کی غیرمنافع بخش ٹرسٹی ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے جو ٹرسٹ ڈیڈ پیش کیں وہ بھی جعل سازی کا شاہکار نکلی ۔کمپیوٹر ٹائپ میں جو انداز 2007 سے پہلے متعارف ہی نہیں کرایا گیا تھا اس انداز ٹائپ میں انہوں نے اپنی ٹرسٹ ڈیڈ 2006 میں بنوا دی اور مریم یہ سب کچھ کر سکتی ہیں۔ بہت سے ایسے معاملات ہیں جنہیں زیربحث لانے کی ہماری اقدار اجازت نہیں دیتیں۔
جب پاناما پیپرز لیک ہوئے تو ان میں نواز شریف کی کسی آف شور کمپنی کا نام نہیں تھا۔ اسی طرح سے اگرچہ شریف فیملی اس دلدل میں پھنسی ہوئی تھی لیکن نواز شریف کا امیج مسٹرکلین کاتھا ۔جب معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو وہاں بھی کوئی ایسا ثبوت ہاتھ نہ آیا تھا کہ جس میں نواز شریف کے دامن پر داغ نظر آتے ہوں ۔جے آئی ٹی تحقیق اور تفتیش اور جاسوسی کے ماہرین پر مشتمل تھی۔ اس ادارے کا نمائندہ بھی اس میں شامل تھا کہ جس کے نام سے دنیا کی خفیہ ایجنسیوں میں تھرتھری مچ جاتی ہے اور جس نے اپنے قیام کے چند سال بعد ہی ایک سپرپاور کے ان عزائم کو بے نقاب کیا تھا جس کی منصوبہ بندی اس نے 25 سال پہلے کی تھی۔ یہ وہ ادارہ ہے جو ایک جانب دشمن کے جاسوس کو پکڑتا ہے تو دوسری جانب اس جاسوس کے اکاؤنٹ میں منقتل ہونے والی گرفتاری سے قبل آخری تنخواہ کے مندرجات بھی اور بینک سلپ بھی حاصل کرلیتی ہے جس سے دشمن ملک کو اپنے جاسوس کو عام شہری ثابت کرنا ممکن نہیں رہتا ۔اس ایجنسی کے بابت یہ سمجھنا کہ اس سے معاملات چھپائے جا سکتے ہیں خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔بزرگ خواتین کہا کرتی ہیں کہ دائی سے پیٹ نہیں چھپایا جا سکتا اور یہ ایجنسی تو دائیوں کو ٹریننگ دینے والوں کو ٹریننگ دیتی ہے۔ اس سے معاملات چھپائے جانا ممکن نہیں تھا اور سچ سامنے آ گیا میاں نواز شریف کا مسٹر کلین کا تصور دھندلا گیا۔ ان کے نام پر بھی ایک آف شور کمپنی نکل آئی۔ ان کے جوابات نے پورے خاندان کی کہانیوں کا دھڑن تختہ کر دیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ شریف خاندان میں سے کوئی بھی مسٹر کلین نہیں ہے۔ اس جے آئی ٹی میں پیشی کے نتیجہ میں شریف خاندان میں موجود نفاق جس کو اس خاندان نے اتفاق کے نام پر چھپا رکھا تھا، کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی کے وقت تو پورا شریف خاندان موجود تھا لیکن جب شہباز شریف کی پیشی ہوئی تو نہ تو نوازشریف خود موجود تھے نہ ہی ان کے فرزندان اس وقت پائے جاتے تھے ۔یوں واضح ہو گیا تھا کہ شریف خاندان جو اتفاق کا بڑا اظہار کرتا ہے، شدید نفاق کا شکار ہے ۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پورے شریف خاندان کو بے نقاب کیا ہے۔ نواز شریف جانتے تھے کہ ان کے خاندان کے اندرونی معاملات اوپر سے نیچے تک کیا ہیں؟ ان حالات میں دانش کا تقاضا تھا کہ مخالفین کے مطالبہ پر استعفیٰ دیتے۔ یوں نہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا نہ جے آئی ٹی کی تشکیل ہوتی اور نہ ہی مرحوم میاں شریف کے معاملات بھی سامنے آتے۔ میاں محمد شریف اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے اور اپنے سارے معاملات کے جوابدہ رب کے حضور ہے کہ اب ان سے دنیا کی کوئی عدالت حساب نہیں لے سکتی نہ ہی وہ اس عدالت میں صفائی پیش کر سکتے ہیں۔لیکن رب کائنات کی عدالت وہ عدالت ہے کہ جہاں ذرہ کے لاکھویں ،کروڑویں حصہ کے برابر بھی ناانصافی کا سوچنا بھی گناہ عظیم ہے لیکن اقتدار کی ہوس نے شریف خاندان کو یہ دن دکھائے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ نواز شریف ،شہباز شریف استعفیٰ دے کر رہی سہی عزت سادات کو بچا لیں ورنہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو کچھ ہونا ہے وہ اچھا نہیں ہوگا۔ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں