میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نوازشریف کا وزارت عظمیٰ برقرار رکھنے پر اصرار

نوازشریف کا وزارت عظمیٰ برقرار رکھنے پر اصرار

منتظم
هفته, ۱۵ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا ہے اور وفاقی کابینہ نے ان کے اعلان کی توثیق بھی کر دی۔وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ کو پاناما اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ الزامات، بہتان اور مفروضوں کا مجموعہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی میں جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں وہ ان کے خاندانی کاروبار سے متعلق ہیں اور ان کے خاندان نے سیاست میں آنے کے بعد کچھ نہیں کمایا بلکہ کھویا بہت کچھ ہے۔ وزیر اعظم نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تعصب اور بدنیتی پر مبنی بھی قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو زبان استعمال ہوئی اس سے بھی بدنیتی اور تعصب ظاہر ہوتا ہے۔وزیراعظم نے استعفے کے مطالبہ کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں ان تمام جماعتوں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ لیے۔انہوں نے کہا کہ وہ سازشی ٹولے کے کہنے پر ا ستعفیٰ نہیں دیں گے، انہیں پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہے اور عوام ہی انہیں عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ کسی کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے جس کے بعد کابینہ نے ان کے مستعفی نہ ہونے کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے انھیں قانونی جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔
اس وقت جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ پر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ وکلاتنظیموں کی جانب سے بھی وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کا تقاضا کیا جا رہا ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 15 جولائی تک وزیراعظم کا استعفیٰ نہ آنے کی صورت میں ملک گیر تحریک چلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے‘ وزیراعظم نوازشریف کو پاناما کیس کے حوالے سے معاملہ پہلے ہی خراب کرنے والے وزرا، مشیروں اور پارٹی عہدے داروں کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سیاسی بیان بازی کے ذریعے معاملہ مزید خراب کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دینی چاہئے اور اپنے اور اپنے خاندان پر عائد الزامات کا خود دفاع کرنا چاہئے جس کیلئے سیاسی پلیٹ فارم کے بجائے سپریم کورٹ ہی مجاز فورم ہے۔
اب جبکہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اب حکمرانوں کو سپریم کورٹ کے روبرو اپنا دفاع مضبوط بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر حکومتی سطح پر سیاسی بیان بازی کر کے اپوزیشن جماعتوں کو مزید جارحانہ حکومت مخالف سیاست کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں وزیراعظم کے کسی صورت مستعفی نہ ہونے اور حکومت کے مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر کے درحقیقت پاناما کیس کے خلاف خم ٹھونک کر سیاسی میدان میں آنے کی حکمت عملی طے کی گئی ہے جوبظاہر جمہوری اصولوں اوراقدار کی نفی اور سراسر خسارے کا سودا ہے کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ بے شک ادھوری بھی ہو اور اس کے بارے میں وفاقی وزراکے تحفظات چاہے درست بھی ہوں‘ اس رپورٹ میں حکمران خاندان کے خلاف پھر بھی اتنا ٹھوس مواد موجود ہے کہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم اپنے منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی انتہائی کمزور پوزیشن پر رہیں گے کیونکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جو بھی مواد اور دستاویزی ریکارڈ موجود ہے وہ ان کا اپنا ہی فراہم کردہ ہے۔ اگر جے آئی ٹی کے روبرو خود وزیراعظم اپنے کاروبار اور ذرائع آمدن سے متعلق استفسارات کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائے اور حسین‘ مریم ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور اسی طرح ان کے صاحبزادے اور صاحبزادی مریم نواز بھی جے آئی ٹی کے استفسارات پر اس کے ارکان کو مطمئن نہیں کر سکے تو اس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے قانونی پہلوئوں پر اپنے دفاع کی قطعاً تیاری نہیں کی تھی اور نہ ہی جے آئی ٹی کی تحقیقات کو سنجیدگی سے لیا گیاتھا بلکہ حکمران خاندان اس خوش فہمی میں رہا کہ پاناما کیس ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ یہی وہ سوچ اور رویہ تھا جس نے حکمران خاندان کو یہ دن دکھایا ہے کہ آج ملک کے اندر ہی نہیں ملک کے باہر بھی مبینہ طور پر ان کے ناجائز ذرائع آمدن اور کاروبار کا تذکرہ ہو رہا ہے جس سے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی سبکی ہو رہی ہے۔
اصولی طور پر تو جے آئی ٹی کیس کے 20 اپریل 2017کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے 5 میں سے2 فاضل ججوں کا وزیراعظم کی نااہلیت کے لئے اختلافی نوٹ آنے کے وقت ہی وزیراعظم کو اپنے اور اپنی پارٹی کے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق ہو جانی چاہئے تھی مگر حکومت اور حکمران پارٹی نے فاضل بینچ کے اکثریتی فیصلہ پر صاد کرتے ہوئے مٹھائیاں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ اس اکثریتی فیصلہ میں مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کر کے حکمران خاندان کے اطمینان کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی۔ جب حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل بھی قبول کر لی گئی اور اس کی مجوزہ رپورٹ بھی قبول کرنے کا عندیہ دے دیا گیا تو اس کے بعد جے آئی ٹی پر تحفظات کا اظہار کرنا اپنی پوزیشن کمزور کرنے کے ہی مترادف تھا جبکہ پاناما کیس کے بارے میں حکمران خاندان اور حکمران پارٹی کی اس ساری حکمت عملی میں ان کی غیر سنجیدگی ہی غالب نظر آئی۔ اس لیے اب ان کی جانب سے جے آئی ٹی کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دے کر تو اپنا موثر دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ حکمران خاندان کو تو جے آئی ٹی کے ذریعے اپنے دفاع کا ایک چانس ملا تھا جو اس نے جے آئی ٹی کو متنازع بنا کر خود ہی ضائع کر دیا اور پھر جے آئی ٹی کے استفسارات پر آئیں بائیں شائیں کر کے اپنا دفاع کو مزید کمزور بنا لیا۔ اس تناظر میں تو آج حکمران پارٹی پاناما کیس کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی پالیسی میں بھی انتہائی کمزور وکٹ پر کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے ذریعے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے دوسرے متعلقہ ارکان پر ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے کے جو الزامات منظر عام پر آ چکے ہیں‘ ان کی روشنی میں ان کے لیے اخلاقی طور پر بھی اپنی پوزیشن کا دفاع کرنا مشکل نظر آتا ہے چنانچہ آج کوئی شخص وفاقی وزراء اور حکمران مسلم لیگ کے عہدے داروں کے اس پراپیگنڈے پر بمشکل ہی قائل ہو گا کہ جے آئی ٹی کے ذریعے ان کے خلاف کوئی سازش کی گئی ہے۔
اس صورت حال میں دانشمندی کا یہی تقاضا ہے کہ وزیراعظم اپنے منصب کو اپنے اور اپنے خاندان کے ذاتی معاملات کے دفاع کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنے سے گریز کریں اور وزارت عظمیٰ آفس کو کسی امتحان میں نہ ڈالیں بلکہ اپنی ذات پر لگنے والے الزامات کا وزیراعظم کے بجائے اپنی ذاتی حیثیت میں دفاع کریں جس کے لیے انہیں بہرصورت دادرسی کے لیے سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرنا ہو گا‘ بے شک انہیں اپنے عوامی مینڈیٹ کے دفاع کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا بھی استحقاق حاصل ہے جس کے لیے پارلیمنٹ میں وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد لانے کا بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے اور یقیناًاس میں عددی اکثریت کی بنیاد پر یہ قرارداد منظور بھی ہو جائے گی مگر ان کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ برقرار رکھنا پھر بھی مشکل ہو گا کیونکہ وہ پاناما کیس میں پھر بھی سپریم کورٹ میں پیشیاں بھگت رہے ہوں گے جس سے بطور وزیراعظم ان کی پوزیشن کبھی مستحکم نہیں ہو پائے گی جبکہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب کسی بھی صورت نہ چھوڑنے کی ضد پر کاربند رہے تو اس سے ان کی حکومت ہی نہیں‘ پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں آج بھی ایسے مفاد پرست عناصر موجود ہیں جو ماورائے آئین اقدام کی سوچ رکھنے والوں کو اپنا کندھا پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
جمہوریت کا تحفظ و استحکام ایک مضبوط وزیراعظم اور مضبوط جمہوری حکومت سے ہی ممکن ہے اگر وزیراعظم اپنی ذات کے حوالے سے خود ہی انتہائی کمزور وکٹ پر آ چکے ہیں تو پھر جمہوریت کو اصل خطرہ ان کی ذات سے ہی لاحق ہو گا۔ آج ایسے حالات ہرگز نہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی کی فضا میں جمہوریت کی بساط الٹے گی تو اس پر صرف عمران خان کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکے گا بلکہ موجودہ حالات میں جمہوریت کا مردہ خراب ہونے کا سارا ملبہ میاں نوازشریف اور حکمران مسلم لیگ (ن) پر آ گرے گا۔ چنانچہ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف سیاسی محاذ آرائی کا راستا اختیار کرنے کے بجائے اپنی ذات کی قربانی دیں اورفی الحال قومی اسمبلی کو نیا قائد ایوان منتخب کرنے کا موقع دے کر اپنی پارٹی کی حکومت اور اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونا یقینی بنائیں بصورت دیگر ان کی وزارت عظمیٰ تو کجا‘ ان کی حکومت کی میعاد بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے جی حضوری کرنے والے مشیروں اور چاپلوس وزیروں کے نرغے سے نکل کر حالات کا خود انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیں گے اور نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے رضاکارانہ طورپر اقتدار سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے کسی بااعتماد فردکو اپنی کرسی پیش کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہونے کاانتظار کریں گے ۔اس طرح وہ اور ان کی پارٹی زیادہ بااعتماد انداز میں اگلے الیکشن میں مخالفین کا سامنا کرسکے گی بصورت دیگر وہ اپنے اقتدار کو کچھ عرصے کے لیے تو طول دے سکیں گے لیکن اگلے انتخابات میں شاید انھیں عوام کی جانب سے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں