پاکستان اسپیڈ کا’’ آئینہ بجٹ‘‘
شیئر کریں
پاکستان اسپیڈ ،شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ برائے سال2022-23 کے بارے میںاچھا یا بُرا ہونے کا قطعی حکم لگانا ، اُس وقت تک نری جہالت اور سراسر بے وقوفی ہی ہوگی ،جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ آخر ایک وفاقی بجٹ ہوتا کیا ہے؟ اوریہ بجٹ کس کے لیے اور کیوں پیش کیا جاتاہے ؟۔واضح رہے کہ حکومتی بجٹ سے مراد مالیات کا وہ پورا مجموعہ ہے، جو ایک حکومت عوام سے وصول یا اُن پر خرچ کرنے کا تخمینہ لگاتی ہے۔عموماً بجٹ دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتاہے ۔ ایک حکومتی آمدنی اور دوسرا حکومتی اخراجات کا اندازہ ۔حکومتی آمدنی کا ہدف ہر حکومت قابلِ خرید و فروخت اشیاء پر ٹیکس لگا کر یا ملک میں موجود وسائل کو بیرون ملک بیچ کرحاصل کرتی ہے۔ جبکہ بجٹ میں بیان کردہ حکومتی خرچے سے مراد وہ اخراجات ہوتے ہیں ،جو ایک حکومت عوام کی بہبود کے لیے مختلف شعبوں میں بہتری اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔
سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ بجٹ کسی بھی ملک کی معاشی حالت کی حقیقی تصویر کی مانند ہوتاہے ۔اگرکسی ملک کے معاشی چہرے پر قرض اور خسارہ کے داغ دھبے کثیر تعداد موجود ہیں تو پھراُس ملک کے ’’آئینہ بجٹ ‘‘ میں ملکی معیشت کا دکھائی دینے والا عکس بھی یقینا بدصورت ہی نظر آئے گا۔ معذرت کے ساتھ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے ،جس پر بجٹ پیش کرنے والی حکومت کے خلاف سیاسی احتجا ج کرکے ملک کی معاشی صورت کی بدنمائی کو مزید بڑھایا تو جا سکتاہے ، لیکن اُسے ہرگز خوب صورت نہیں بنایا جاسکتا۔ لہٰذا ایک ایساملک جس کی معیشت دیوالیہ ہونے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہویااُس پر غیر ملکی قرضوں اور مالی ادائیگیوں کا بوجھ اُس کی کل آمدنی سے بھی کئی گنا بڑھ چکا ہو۔وہاں بجٹ میں عوام کو ریلیف پہنچانا کم و بیش ناممکن ہوتاہے ۔لیکن تمام تر معاشی زبوں حالی اور مشکلات کے باوجود اگر اُ س ملک کی حکومت اپنی عوام کے سامنے ایک ایسا متوازن بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے ،جس سے ملکی معیشت کا پہیہ پھر سے چلنے کی تھوڑی بہت اُمید ہوچلے تو بلاشبہ، ایسی حکومت اور اس کے سربراہ کی ستائش کرنا تو بنتی ہے۔
من حیث القوم ہمیں پاکستان اسپیڈ، شہباز شریف کی حکومت کو بہر صورت یہ کریڈٹ تو دینا ہی ہوگا کہ اُن کی حکومت نے ملکی تاریخ کا مشکل ترین بجٹ بنانے سے کسی بھی مرحلہ پر حرفِ انکار یا راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش نہیںکی۔ حالانکہ بجٹ پیش ہونے سے بہت پہلے ہی ملک کے زیادہ تر معاشی و سیاسی ماہرین یک زبان ہوکر حکومت کو ایک بار نہیں ،باربار خبردار کر چکے تھے کہ ’’اگر شہباز شریف کی حکومت نے یہ بجٹ بنایاتو اُن کی حکومت ہی نہیں بلکہ اُن کی سیاست بھی ختم ہوجائے گی‘‘۔ جبکہ ذرائع ابلاغ پریہ خبریں اور افواہیں بھی تواتر کے ساتھ گردش کررہی تھیں کہ شہباز شریف کی حکومت کو بجٹ پیش کرنے کے فوراً بعد رخصت ہونے پر مجبور کردیا جائے گا۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی اِس عجیب و غریب اور غیر یقینی صورت حال میں پاکستان سپیڈ ،شہباز شریف کی حکومت نے جس طرح کا وفاقی بجٹ پاکستانی عوام کے روبرو پیش کیا ہے ۔اُس کے بارے میں جو ایک بات کہی جاسکتی ہے ،وہ بس یہ ہی ہے کہ اتنے بُرے ، کھٹن اور مشکل معاشی حالات میں اس سے بہتر بجٹ، پیش کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔
خاص طور پر مالی وسائل کی سنگین کمی کے باوجود بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ ،ایک ایسا راست اقدام ہے ،جس کی توقع حکومت سے کم ہی کی جارہی تھی ۔ بظاہر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کے مطابق یہ اضافہ بہت کم ہے ، مگر قومی خزانے کی تنگی داماں کا لحاظ کیا جائے تو پھر سرکاری ملازمین کو ملنے والا یہ ریلیف بھی کافی محسوس ہوگا۔نیز تنخواہ دار اور نجی شعبے سے وابستہ طبقے پر غیر ضروری اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے بجٹ میں انکم ٹیکس کی کم سے کم حد 6 لاکھ سالانہ سے بڑھا کر 12 لاکھ سالانہ کردی گئی ہے، جبکہ چالیس ہزار سے کم آمدنی والوں کے لیے دو ہزار روپے امداد کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ وسیع کیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے چھوٹے کاروبار خاص طور پر کاروباری خواتین کے لیے کم ازکم ٹیکس کی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کردی ہے اور سیونگ سرٹیفکیٹ (بچت سکیموں)، پینشن فوائد، شہداء کے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے کھاتوں میں سرمایہ کاری پر منافع پر لاگو ٹیکس کو10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردیا ہے۔ اِ ن حکومتی اقدامات سے جہاں نچلے طبقے کے لیے روزگار کے مواقع اور مالی آسودگی کے امکانات بڑھیں گے ، وہیں نئے اور چھوٹے کاروبار ی افراد کو اپنے کاروبار کو توسیع دینے میں سہولت بھی میسر آئے گی۔
وفاقی بجٹ میں موجودہ حکومت نے غیر پیداواری اثاثوں پر فوری ٹیکس کا اطلاق کرکے ،پہلی بار ئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبہ میں جنونیوں کی طرح سرمایہ کاری کرنے والے طبقہ اشرافیہ کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کرکے ایک اچھا قدم اُٹھایاہے۔اس فیصلہ سے جہاں جامد معیشت میں غیر معمولی ہلچل اور تحرک پیدا ہوگا ،وہیں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں دیرپا اور مستقل کمی بھی واقع ہوگی ۔جس سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے اپنے گھر کا حصول آسان اور ممکن ہوسکے گا۔ نیز آئندہ مالی سال میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ گزشتہ برس کے مقابلے میں 67 فیصد اضافہ کے بعد چوالیس ارب سترہ کروڑ روپے کردیا گیا ہے اور تعلیمی وظائف کا دائرہ کار بھی ایک کروڑ طلباء تک بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ صوبہ بلوچستان کے طالب علموں کو 5 ہزار تعلیمی وظائف بھی دئیے جائیں گے۔ مذکورہ علم دوست بجٹ نکات سے واضح ہے کہ پاکستان اسپیڈ ،شہباز شریف نے خسارہ کے بجٹ میں بھی تعلیم کو بطور خاص اہمیت دی ہے۔علاوہ ازیں بجٹ میں ادویات بنانے میں استعمال ہونے والی اجزاء کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دینے سے ادویات کی ہوش رُبا قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ پیش ہونے سے قبل بعض معاشی ماہرین کے جانب سے بار بار اس اندیشہ کا اظہار بھی کیا جارہا تھاکہ’’ شاید مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ میں موجودہ حکومت کے لیے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کرنے کے لیے رقم سرے سے دستیاب ہی نہ ہوسکے ‘‘ ۔ بہرکیف یہ تشویش غلط ثابت ہوئی اور وفاقی بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا کُل حجم بائیس کھرب تریسٹھ ارب روپے رکھا گیا ہے، جس میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام کے لیے آٹھ سو ارب روپے اور صوبوں کے لیے چودہ کھرب تریسٹھ ارب روپے ہے۔ پی ایس ڈی پی میں سے صوبوں اور خصوصی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک سو پینتیس ارب پچاسی کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔اگر پاکستان اسپیڈ ، شہباز شریف کو اپنے معاشی ماہرین کے ترتیب دیئے مذکورہ بجٹ پرعمل درآمد کرنے کے لیے پورے ڈیڑھ برس مل جاتے ہیں تو کچھ بعید نہیں ہے کہ اُن کی حکومت، ملک کو درپیش بیشتر معاشی بحرانوں سے بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوجائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔