
جنگ بندی کے بعد بھارت نے معاملات سرد خانے میں ہی رکھے ہیں!
شیئر کریں
پاکستان اور بھارت میں شدید تناؤ کے بعد 10؍ مئی کو جنگ بندی کا اعلان دونوں ممالک کی قیادت کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہوا ،
جس کا خیرمقدم پاکستان کی جانب سے فوراً ہی کیا گیا، مگر فضاؤ ں میں یہ سوالا ت موجود رہے کہ اس جنگ بندی میں پاکستان کی واضح برتری کے باوجود ہم نے آخر کیا حاصل کیا ہے؟
اس دوران میں صرف ڈی جی ایم او کی سطح پر عین جنگ کے بعد اور پھر جنگ بندی کے دو روز بعد ہونے والے رابطوں کے علاوہ کسی بھی محاذ پر کسی پیش رفت کی کوئی ٹھوس اطلاع موجود نہیں تھی۔
تاہم گزشتہ روز یہ خبر آئی ہے کہ واہگہ بارڈر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک، ایک قیدی کا تبادلہ ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکار پورنم کمار شاہ کو بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا جبکہ پنجاب رینجرز کے جوان محمد اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
پاکستان رینجرز نے سرحدی خلاف ورزی پر بی ایس ایف کے اہلکار پورنم کمار شاہ جبکہ بی ایس ایف نے پنجاب رینجرز کے جوان محمداللہ کو گرفتار کیا تھا۔پورنم کمار شاہ کو 23 اپریل کو پاکستان رینجرز نے قصور سے حراست میں لیا تھا، بھارتی فوج کے ایک بیان کے مطابق متعدد میڈیا اداروں نے بی ایس ایف اہلکار کی واپسی کی بھی اطلاع دی۔
انڈین ایکسپریس نے "بی ایس ایف” کے حوالے سے بتایا کہ یہ حوالگی پُرامن طریقے سے اور طے شدہ ضوابط کے مطابق عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح بھارتی خبر رساں ادارے ‘دی وائر’ نے رپورٹ کیا تھا کہ 34سالہ پورنم کمار کا خاندان رشڑا مغربی بنگال میں ہے ، جسے امید تھی کہ سفارتی کوششیں ان کی واپسی میں مددگار ثابت ہوں گی۔
پورنم پنجاب کے ضلع فیروزپور میں بی ایس ایف کی 24ویں بٹالین میں تعینات ہیں، اور 23اپریل کو ان کی ڈیوٹی بھارت، پاکستان کی سرحد پر تھی، جب انہوں نے مقامی کسانوں کو ایک خطرناک علاقے سے نکالنے میں مدد کی اور مبینہ طور پر بین الاقوامی سرحد عبور کرلی تھی۔
دی وائر کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بھارت اور پاکستان کے درمیان صورتحال کشیدہ تھی، پورنم کمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پاکستانی فوج نے حراست میں لیا اور بعد میں ایک تصویر جاری کی، جس میں ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر دکھایا گیا، جس سے ان کی گرفتاری کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک، ایک قیدی کے تبادلے کی اس سرگرمی سے یہ تو انداز ا ہو رہا ہے کہ انتہائی سست رفتاری سے ہی سہی مگر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے رابطوں میں کچھ رسمی اقدامات لیے جارہے ہیں۔
مگر تاحال پاکستان بھارت کے درمیان تناؤ کے اسباب بننے والے تمام اقدامات جوں کے توں موجود ہیں ا ور بھارت اس معاملے کو ایک گہری خاموشی اور برف خانے میں ہی رکھنے کی مکارانہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
چنانچہ جنگ بندی کے باوجود گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت میں براہ راست مذاکرات کی بحالی کی خواہاں ہے۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ امریکا اب پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست روابط کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔
جب فریقین کے درمیان تاحال ڈی جی ایم او کی سطح پر ہاٹ لائن پر رابطے کے علاوہ کسی بھی سطح پر بیٹھ کر بات چیت کا معاملہ تک طے نہیں ہو سکا تو پھر سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کن شرائط پر ہوئی ہیں؟یہ محض سادہ نتیجہ نہیں ہے۔
اس کو ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ جنگ بندی نازک ہے۔
انہوں نے ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو انٹرویو میں کہا کہ جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں ‘نیو نارمل’ کی باتیں غیر حقیقت پسندا نہ ہیں، نیو نارمل کا کوئی بھی حوالہ بذات خود ابنارمل ہے، ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے ۔
رضوان سعید شیخ نے کہا کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔ خطے کی ڈیڑھ ارب آبادی کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں، سیز فائر پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ اصل مسئلے کا حل نکالنا اشد ضروری ہے، پاکستان اور بھارت کے مابین اصل مسئلہ جموں و کشمیر ہے جس کی حل طلبی پائیدار امن کی ہر کوشش کو متاثر کرتی رہے گی۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کا مفاد امن میں ہے ، پاکستان کسی بھی اشتعال پسندی اور جارحیت کا بھرپورجواب دینے کے لئے پرعزم ہے ، حالیہ کشیدگی میں کمی لانے کے حوالے سے امریکی قیادت کی مسلسل کوششوں کے مشکور ہیں۔
رضوان سعید شیخ نے کہا کہ امریکہ خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے حوالے سے ہمیشہ متحرک رہا ہے ، سعودی عرب، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک کی کاوشوں کے بھی شکر گزار ہیں، مسئلہ کشمیر کی جانب امریکہ سمیت عالمی برادری کی توجہ مسئلے کے مستقل حل کا ایک نادر موقع ہے، مسئلہ کشمیر کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونا حوصلہ افزا ہے تاہم اس میں تسلسل اشد ضروری ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ دو دن قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے عوام سے خطاب میں ‘‘نیو نارمل’’ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جس طرح سرحد کے آر پار کارروائیوں کا عندیہ دیا ہے، اور جنگ بندی کی پروا کیے بغیر اپنے تمام ایجنڈے کے ساتھ جڑے رہنے کا واضح اعلان کیا ہے، اس نے خطے کو جنگ بندی یا سیز فائر کے بجائے ایک مستقل حالت جنگ میں جھونک دیا ہے۔
نریندر مودی کے اس نیو نارمل کو بعد میں بھارتی وزیردفاع نے بھی پوری صراحت سے بیان کر دیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے گزشتہ روز ہی کہا کہ ‘‘مودی نے واضح کر دیا ‘نیا بھارت’ دہشت گردی کے خلاف سرحد کے دونوں جانب کارروائی کرے گا’’۔
پاکستان کو اس صورت حال کا گہرائی سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ وطن عزیز اب ماضی کی طرح غفلت کی کل سے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ اسے اب بھارت کے ان عزائم کے خلاف مستقل حالت ِجنگ میں رہنا ہے۔ اب مقامی طور پر سیاسی قضیوں ، جانبدارانہ سیاسی بندوبست اور انتخابی اٹھا پٹخ کے پرانے کھیلوں سے نکلنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
اب ایک سنجیدہ ، نمائندہ سیاسی بندوبست ہی عوامی اور انتظامی تال میل کو اُصولی اور اخلاقی بنائے رکھے گا، جس میں بھارت کے خلاف سیاسی ، سفارتی ، عسکری اور ہر طرح کا جنگی دفاع ممکن ہو سکے گا۔ درحقیقت پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تناؤ نے دو ملکوں کے معاملات کو ہی بدل کر نہیں رکھ دیا بلکہ خود اندرون ملک بھی بہت سے فیصلوں کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
اس آواز کو جتنی جلدی سن لیا جائے تو یہ آئندہ بحرانوں کے امکانی منظرنامے میں ہمارے کردار کو متعلق بنائے رکھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔