مقبوضہ کشمیر و مقبوضہ فلسطین، غاصبوں کے قبضے میں
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین دو علیحدہ خطے اور جدا مسائل ہیں مگر ان مسائل کا حل ایک ہی ہے۔دونوں مسئلوں کے مابین مشترکات پائی جاتی ہیں۔پہلی مشترک بات یہ ہے کہ دونوں خطوں پر دو الگ الگ شکل مگر ایک ہی ذہنیت کے سامراج نے غاصبانہ قبضہ کیا۔یعنی 1947 میں پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی ہندوستان نے کشمیر پر قبضہ کی ٹھان لی اسی طرح کئی برسوں سے کی جانے والی بوڑھے استعمار برطانیہ کی ناپاک سازشوں کے نتیجے میں صیہونیوں نے سر زمین انبیاء فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔یعنی 1948ء میں کشمیر اور فلسطین دونوں مقبوضہ ہو چکے تھے۔ایک طرف صیہونزم سوچ کارفرما تھی اور دوسری طرف برہمنزم سوچ کار فرما تھی۔جناب لیاقت بلوچ ،نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے وفد سے ملاقات میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی فاشزم اور غزہ فلسطین کے مظلوم فلسطینی عوام اسرائیلی امریکی صیہونی ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی دعویداری کا راگ الاپنے والے جدید دور کے حکمران۔ بین الاقوامی ادارے کشمیریوں اور فلسطینیوں کا قتل عام، نسل کشی رکوانے میں ناکام ہیں۔
کشمیریوں اور فلسطینیوں کی اس بیرحمانہ نسل کشی پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق تنظیموں کی یہ بے حسی، مجرمانہ غفلت اور جانبداری پر مبنی متعصبانہ کردار بہت بڑا المیہ ہے۔ غزہ میں 32 ہزار معصوم فلسطینی بارود و آہن اور بھوک کا شکار ہوکر جان گنوابیٹھے۔ بستیاں، پناہ گزین خیمے، قطاروں میں خوراک کے حصول کے لیے کھڑے فلسطینیوں کا براہ راست فائرنگ اور گولہ باری کے زریعے قتل عام کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اہل عزہ و فلسطین اور کشمیر سے متعلق حکومت پاکستان کی مجرمانہ غفلت اورخاموشی کا خاتمہ کریں اور مسئلہ کشمیر کے حل اور اہل غزہ پر جاری مسلسل اسرائیلی جارحیت اور قتل و غارت گری کے خاتمہ کے لیے جاندار کردار ادا کریں۔جناب لیاقت بلوچ نے وفاقی وزارتِ تعلیم اور اکنامکس افیئرز ڈویژن سے مطالبہ کیا کہ کشمیری طلبہ و طالبات کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے ان طلبہ و طالبات کا تعلیمی مستقبل تاریک نہ ہو۔
بات کشمیر کی ہو تو وادی کشمیر اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک اہم اسٹرٹیجک علاقہ بھی ہے اور وسائل سے مالا مال بھی۔اگر بات فلسطین کی کریں تو فلسطین بین الاقوامی تجارت کے اعتبار سے اہم ترین خطہ اور بہترین وسائل کی جگہ ہے۔یعنی نہر سوئز۔مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے سیاسی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش ہونے کے بعد جاری پروجیکٹ اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ اب یہ امر کسی سے چھپا نہیں کہ حکمران جماعتوں نے اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے تابعدار مہرہ کا کردر ادا کیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کو سپریم کورٹ میں ریفرنس کے ذریعے ازسر نو دائر کرکے سنگین عدالتی غلطی کی درستگی کرادی۔ اب یہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بینظیر بھٹو کیس بھی ازسرنو عدلیہ میں لایا جائے تاکہ بینظیر بھٹو کی شہادت اور المناک سانحہ کی بھی مکمل تحقیق ہوجائے اور قاتلوں کو عبرتناک سزا مل جائے۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں لیاقت علی خان شہید اور جنرل ضیاء الحق کے سانحات کی طرح پیپلز پارٹی کے دورِ حکمرانی میں کم از کم بینظیر بھٹو سانحہ کی حقیقت سامنے آنی چاہیے۔
اب کشمیر ہو یا فلسطین دونوں خطو ں میں ایک ہی جیسے مظالم کی داستانیں ہیں۔کشمیر میں بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے جب کہ فلسطین میں غاصب اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کر دی ہیں۔کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی جو اہم مثالیں نظر آتی ہیں ان میں بچوں پر تشدد،خواتین کی بے حرمتی اور تشدد،نوجوانوں کو جیلوں کی سلاخوں میں قید کرنا،کشمیری تحریک کے رہنمائوں کو قتل کرنا سمیت ہر وہ ظلم کی داستان نظر آتی ہے جو انسان کے دل کو دہلا دیتا ہے۔ اسی طرح فلسطین میں بھی اسی طرح کے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور پر سوز مظالم کی داستانیں آئے روز مظلوم فلسطینیو ں کے درد و غم میں اضافہ کر رہے ہیں۔مظلوم کشمیریوں او ر مظلوم فلسطینیوں نے ان دونوںغاصبوں (بھارت اور اسرائیل) سے اپنی جان آزاد کروانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ایک طرف فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے انتفاضہ کی تحریک کا آغاز کیا تو دوسری جانب کشمیریوںنے انتفاضہ کی تحریک کا دامن تھام لیا اور غاصب بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہو ئے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مزاحمت کرنے لگے۔دشمن اسی مزاحمت سے خوفزدہ ہوتا ہے کیونکہ غاصب بھارتی ہوں یا اسرائیلی دونوں ہی مزاحمت اور جہاد سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی مزاحمت ہو یا فلسطینیوں کی مزاحمت دونوں ہی کے نتیجے میں مظلوموں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی ہے اور غاصب درندوں(بھارت اور اسرائیل) کو بد ترین شکست کا سامنا رہاہے۔