کشمیری شہداء کی میتیں نامعلوم مقامات پر سپرد خاک
شیئر کریں
ریاض احمد چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت شہدا کے والدین کی دہائی عالمی میڈیا میں بھی گونجنے لگی۔ پیاروں کی میتیں تک واپس نہیں کی جارہیں جس پر غم سے نڈھال والدین نے عالمی میڈیا تک رسائی حاصل کر لی۔ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کی لاشیں واپس نہیں کریں گے۔ شہادت کے بعد لاشیں نہ دینے کا سبب شہداء کے جنازوں کے ساتھ عوامی مظاہروں کا ڈر ہے۔بھارت سید علی گیلانی کی میت سے بھی خوفزدہ رہا۔اس حوالے سے علی گیلانی کے نمائندہ خصوصی عبداللہ گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم بھارتی فورسز نے علی گیلانی کی تدفین کہاں کی۔ قابض انتظامیہ نے جنازے میں محض چند اہل خانہ کو شرکت کی اجازت دی، اس موقع پر آزادی کشمیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔کشمیری رہنما نے بہت عرصہ پہلے ”شہیدوں کے قبرستان” میں دفن کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ مگر کٹھ پتلی انتظامیہ نے علی گیلانی کی شہداء قبرستان میں تدفین کی اجازت بھی نہ دی۔مرحوم پاکستان کے ایک کٹر حمایتی تھے جنہوں نے اپنی زندگی کشمیر کاز اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔
بھارتی فورسز نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں،اور جعلی مقابلے میں شہید کر دیتی ہیں،اقوام متحدہ بھارتی بربریت کا نوٹس لے۔اقوام متحدہ کشمیر میں جعلی مقابلوں کی آزادانہ انکوائری کروائے،بھارتی فوج جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ پانچ اگست 2019 کو نریندر مودی کی حکومت نے آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ کشمیری نوجوانوں کو احتجاج سے باز رکھنے کے پیش نظر بھارتی سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر بلا امتیاز گرفتاریاں کیں۔ پانچ اگست کو باضابطہ کرفیو نافذ کر کے آمد و رفت محدود کر دی گئی۔ رابطہ کاری کے نظام معطل کر کے خطے کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر میں جعلی مقابلے میں 3کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا، شہدا میں نوجوان اطہر مشتاق وانی، زبیر احمد لون اور اعجاز مقبول تین طالب علم شامل تھے۔ انہیں سری نگر کے مضافات میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ انصاف تو درکنار پیاروں کی میتیں تک واپس نہیں کی جارہیں۔والدین نے آبائی گاؤں میں خالی قبر کھود رکھی ہے۔والد اطہر مشتاق کا کہنا ہے کہ ساری عمر اپنے بچے کی میت کا انتظار کروں گا۔ میرے معصوم بیٹے کو قتل سے پہلے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسا سلوک کیا گیا جو جانوروں سے بھی روا نہیں رکھا جاتا۔ زبیر شہید کے والد غلام محمد لون کا کہنا تھا کہ بیٹے کو کبھی بھی پولیس نے طلب نہیں کیا تھا۔وہ تو بس اپنے کام میں مصروف رہتا تھا۔شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ اپنے لال کی قبر نہیں دیکھ سکتی کہ اسے دور کہیں دفنا دیا گیا۔ شہید میرا بیٹا میرے لیے سب کچھ تھا۔اعجاز شہید کے چچا طارق احمد نے بتایا کہ ان کا بھتیجا تو ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مبتلا تھا۔ اعجاز یونیورسٹی میں اپنے امتحان کی تیاری کرنے گیا تھا کہ اسے شہید کر دیا گیا۔
بھارتی قابض فوج نے تینوں شہدا کی نعشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ انہیں شہداء کے جنازوں کے ساتھ عوامی مظاہروں کا ڈر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اب تک ہزاروں ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس اندوہناک واقعے سے محض ایک ہفتہ قبل بھارتی فوج نے تین بے گناہ کشمیری مزدوروں کو بھی اپنی سفاکی کا نشانہ بنایا تھا۔ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ 7 عشروں سے غیر انسانی سلوک کرنے والے بھارت کا مکروہ اور بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ سری نگر میں تین کشمیری نوجوانوں کو فیک انکاؤنٹر میں بھارتی فوج نے شہید کیا جو کہ طالب علم تھے اور لاشیں بھی لواحقین کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔ بھارتی فوج اور مودی سرکار کے خلاف کشمیری نوجوانوں کے والدین سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔ والدین کا کہنا تھا کہ ایک ہی چراغ تھا جو بجھا دیا، اب کوئی نہیں، ہم کس سے مانگیں ۔ اس موقع پر خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی جو دھاڑیں مارتے روتے نظر آئیں۔سرینگر میں احتجاج کے دوران مائیں رو رہی تھیں انہیں کوئی دلاسہ دینے والا نہ تھا۔ بھارتی ظالم فوج نے بے گناہ نہتے کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اس پر کشمیری احتجاج ریکارڈ کروائیں تو انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
٭٭٭