میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغان امریکا تعلقات پر خواجہ آصف کا تبصرہ

افغان امریکا تعلقات پر خواجہ آصف کا تبصرہ

منتظم
جمعرات, ۱۵ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز ایک بیان میں برملا اس بات کااعتراف کیا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان اورامریکا کے تعلقات پرجمی برف پگھلنے کے آثار ہویداہورہے تھے اورعالمی سطح پر یہ پیشگوئی کی جارہی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی رکاوٹ ختم ہونے والی ہے ۔ پاک امریکا تعلقات کے درمیان پیداہونے والی دراڑیں کم ہونے کے بارے میں رپورٹیں پاکستانی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی واشنگٹن میں امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بعض امریکی رہنمائوں کی جانب سے آنے والے بیانات کی روشنی میں سامنے آرہے تھے ،ان بیانات سے یہ ظاہرہورہاتھا کہ دونوں ممالک اعتماد سازی پر رضامند ہو گئے وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں کا کہناتھا کہ تہمینہ جنجوعہ کی امریکی حکام سے ملاقاتیں کامیاب رہی ہیںاوران کے نتیجے میں دونوں ممالک پہلے سے زیادہ قریب آرہے ہیں۔

اسلام آباد نے دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے حوالے سے امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کیخلاف کوششوں میں کچھ کامیابیاں ملی ہیں‘ جس کے نتیجے میںملک میں دہشت گردوں اور علیحدگی پسند گروپوں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔ امریکی رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیا گیاتھا کہ پاکستان افغانستان میں موجود مخالف عناصر کیخلاف کارروائی چاہتا ہے جس کے لیے وہ امریکا اور افغانستان کی طرف دیکھتا ہے۔ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی(ڈی آئی اے)کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ پی ایشلے کی طرف سے عالمی سلامتی صورتحال پر جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی کوششوں سے فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوگئے ہیں۔ پاکستان سرحدی دراندازی اور ملک بھر میں دہشت گردی کیخلاف آپریشنز جاری رکھے گا جبکہ مغربی بارڈر مینجمنٹ کی کوششیں بھی کرتا رہے گا۔بی بی سی کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی، سرحدوں پر کنٹرول، افغان مہاجرین سے پاکستان کی مشکلات اور افغانستان سے پاکستان کے تعلقات، ایسے چار اہم نکات ہیں جن پر پاکستان کی شکایت کو امریکا نے جائز قرار دیا ہے اور ان کو رفع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وائٹ ہائوس میں دو دن قبل ہونیوالی ایک بریفنگ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس جی ویلز نے افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی وزارتِ خارجہ پاکستان سے باہمی تعلقات بہتر کرنے کی حمایت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا تھاکہ گذشتہ چند مہینوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان مختلف وفود کا تبادلہ ہوا ہے جن کا مقصد کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنا ہے تاکہ باہمی تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔

جہاں تک پاک امریکا تعلقات کاسوال ہے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ 2001سے اب تک پاکستان کے تمام حکمران، جن میں خواجہ آصف کے ممدوح میاں نواز شریف بھی شامل ہیں افغانستان پر امریکا کے ناجائز اور ظالمانہ قبضے کو سراہتے اور ہر ممکن مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بیان پر غور کیاجائے اوراسے پاکستان کی جانب سے پالیسی بیان تصور کرلیاجائے تو اس سے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے حکومتی پالیسی اور زمینی حقائق میں واضح تفاوت نظر آتاہے ،اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ پاک امریکا تعلقات میں پیداہونے والی دوریوں کے بعد ایک دوسرے کے درمیان قربت حکومت یاہمارے وزیرخارجہ کو پسند نہیں ہے، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ 2013سے اب تک خواجہ آصف کی ن لیگی حکومت نے کیا کیا؟ کیا کہیں امریکا کو فراہم کردہ امداد اور پاک سرزمین کے استعمال میں کوئی رکاوٹ ڈالی؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ اب اچانک خواجہ آصف کو یہ کیوںیاد آیا کہ امریکا کو افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں۔ کیا انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیںتھاکہ امریکا کو دنیا میں کہیں بھی امن سے دلچسپی نہیں اور خود اس نے مختلف ملکوں میں بد امنی اور غارت گری کو ہوا دی ہے تاکہ اس کے جنگی عزائم پورے ہوتے رہیں اور اس کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال پیدا کردی گئی ہے اس میں امریکا اور یورپ کا اسلحہ خوب فروخت ہورہاہے۔

دراصل حقیقت یہ کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ سمیت پورا یورپ میدان جنگ بنا اور فتح و شکست سے قطع نظر یورپ کو زمینی نقصان پہنچا۔ چنانچہ اہل یورپ و امریکا نے طے کرلیا تھا کہ آئندہ جنگیں یورپ کی سرزمین سے باہر لڑی جائیں گی تاکہ ان کے علاقے تباہی سے محفوظ رہیں۔ 1979میں جب سوویت یونین نے افغانستان کو روندا تو امریکا فوری طور پر مقابلے میں نہیں آیا۔ تاہم جب مجاہدین نے بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کردیے تب امریکا کو بھی حوصلہ ہوا مگر اس نے صرف اسلحہ فراہم کیا، فوج اتارنے کی ہمت نہیں کی۔ اب یہی امریکا خود افغانستان پر حملہ آور ہوگیا حالانکہ 11 ستمبر 2001کو نیو یارک کے تجارتی مرکز کی تباہی سے افغانوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس وقت افغانستان پر طالبان کی جائز حکومت تھی جسے پاکستان سمیت 3 دیگر ممالک نے بھی تسلیم کر رکھاتھا۔ طالبان کے سفیر ملا ضعیف اسلام آباد میں اپنی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔ لیکن اس وقت کے بزدل حکمرانوں نے امریکا کے خوف سے اپنے افغان بھائیوں کے قتل عام میں امریکا سے تعاون کیا اور تمام سفارتی آداب پامال کرتے ہوئے طالبان کے سفیر کو امریکا کے حوالے کردیا۔ اس وقت کی مسلم لیگیں کہیں جاچھپی تھیں۔

جہاں تک افغانستان میں امن کی بات ہے تواس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کا امن بھی افغانستان سے وابستہ ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں جو بھی تخریب کاری ہوتی ہے، کابل انتظامیہ پاکستان پر اس کا الزام دھر دیتی ہے۔ پاکستان ثبوت لیے بیٹھا رہتا ہے کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں کتنی کارروا ئیاں ہوئیں۔ گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی کے مصالحانہ رویے اور لہجے سے آس بندھی تھی کہ دونوں ممالک مل کر تخریب کاروں کا قلع قمع کریں گے لیکن کیا امریکا کو جو افغانستان پر قبضے کا طویل منصوبہ بنائے بیٹھا ہییہ بات پسند آئے گی۔ خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہاہے کہ پاکستان صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اصولی طورپر یہی ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان تو اب تک امریکی مفادات کا تحفظ کرتا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ نائن الیون کے بعد کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، مرواتا کوئی ہے، آلہ قتل ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اب امریکی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران اگر امریکا کے خلاف جم کر کھڑے ہوجاتے تو امریکا زیادہ دیر نہ ٹکتا۔ لیکن کیا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف امت مسلمہ متحد ہے؟ مرگ مفاجات کے شکار صرف کوسنے دے سکتے ہیں، بد دعائیں کرسکتے ہیں، میدان میں نکلنے سے خوف زدہ ہیں، موت کا خوف جو آکر رہے گی۔

کیا افغان مجاہدین اور فلسطینی مجاہدین کی مثالیں کافی نہیں ہیں۔ امریکا کو برا بھلا کہنے سے بہتر ہے کہ اپنی صفیں مضبوط کی جائیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کی مسلم لیگ اور ہمارے وزیرخارجہ میں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کاحوصلہ ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں