مغرب سے مشرق تک
شیئر کریں
انوشے صدام
اپنے دادا سے اکثر فارسی کا ایک شعر سنتی تھی جس کا مفہوم اب وقت کے ساتھ زیادہ اچھے سے عیاں ہوا ہے مجھ پر ، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’آدمی با عقل و دانش آدم است، شخصیت باجامہ و دستار نیست‘‘ یقینی ’’انسان کو عقل اور دانش کی وجہ سے آدم کہا جاتا ہے، اس کا اخلاق و شخصیت صرف کپڑوں کی ظاہری بنائو سنگھار اور پگڑی کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
اس بات کا سیدھا سا مفہوم بنتا ہے کہ انسان کی عقل اور دانش کی پرورش ظاہر سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ بطور ایک مسلم ہمیں اپنے بچوں کی تربیت بھی ایسی کرنی چاہیے نہ کہ ظاہریی چک دھمک اور اچھا لباس ہو۔ ان کی روحانی تربیت سے ہی ان کے شعور کو پختگی مل سکتی۔ یہاں مسئلہ ہمارے باطن کا نہیں بلکہ ظاہر کا بنا ہوا ہے۔ ہم ہماری سوچ، اور ہماری نسل اس بات پر لگے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ظاہر کو کیسے اچھا بنا لیں۔ کچھ ایسی ظاہری خوبصورتی ہمیں مغربی معاشرے میں نظر آتی ہے تو ہم عش عش کر اٹھتے ہیں۔ ہماری پوری نسل اب اسی چکر میں پڑ گئی ہے کہ ہم خود کو مغربی ماحول میں ڈھال لیں۔
ایسے ماحول سے متاثرہ والدین بچوں کی روحانی تربیت تو دور کی بات اسلام کی بنیادی تعلیم دینے سے بھی گریزاں ہیں۔ انہیں انگریز اور انگریزی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی اب بچوں میں بھی مغربی تہذیب کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ کچھ پل کو اگر ٹھہر کر سوچیں کہ آیا جس مغرب نے ہمیں متاثر کیا ہوا ہے اس کا اصل چہرہ وہ ہے بھی یا نہیں۔
حقوق انسانی کی بات کرنے والا مغرب کئی شہروں کو تباہ کرچکا ہے۔ کئی معصوم بچوں کو خاک و خون میں تڑپا چکا ہے۔ مگر دو شہروں کو ایٹمی دھماکوں سے تباہ اور کئی ملکوں کو فتح کرنے کے بعد بھی ہمارے مغرب زدہ مسلمان اسی کے مفتی بنے بیٹھے ہیں۔ ہم مغرب کی تہذیب سے اتنا متاثر ہیں کہ مظالم کو چھوڑ کر جمہوریت اور تہذیب کی اچھائیاں بیان کرتے نہیں تھکتے۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ کیوں سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جن سے ہم مرعوب ہیں وہ سب زوال پذیر ہیں۔ ان سب کا خاتمہ قانونِ فطرت کے مطابق لازم ہوچکا ہے۔ کاش ہم سمجھ سکتے کہ زمینی خداؤں کو مچھر اور ابابیل جیسی حقیر چیزوں سے مروایا جاتا ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ جو سورج طلوع ہوتا ہے اسے غروب بھی ہونا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’’جس چیز کو زوال ہے میں اس کو خدا نہیں مان سکتا‘‘۔ مگر یہاں ہم شاید مان چکے ہیں۔
ہمیں مغربی تہذیب میں جو چکا چوند نظر آتی ہے وہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں، اگر ہم 144 سال پہلے کی تاریخ پڑھیں تو مغرب کا گرد آلود چہرہ نظر آئے گا۔ اس وقت مغرب میں عورت جتنی مظلوم تھی وہ شاید ہی آج کے زمانے میں کسی مسلمان ملک میں مظلوم ہوں۔ مغرب میں عورت کو ووٹ ڈالنے یا تعلیم حاصل کرنے پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یہاں تک کہ کیمبرج یونیورسٹی میں 1930ء تک عورتوں کی تعلیم پر پابندی تھی ۔ لڑکیاں گریجویشن نہیں کر سکتی تھیں ، اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی 1920ء تک عورتوں پر گریجویشن کرنے کی پابندی تھی جبکہ دوسری طرف عالم اسلام کی سب سے پہلی یونیورسٹی جامعہ القروئین (ماسکو) جو 859 اے ڈی میں بنی تھی اور آج تک تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہے اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسلمان عورت فاطمۃ بنت محمد الفہریہ نے رکھی تھی۔
مغرب کا وہ معاشرہ جس نے سو سال بعد عورت کو ووٹ اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق دیے وہ آج مسلمان عورتوں کو حقوق سکھارہا ہے۔ مسلمان عورتوں کو ان کے حقوق 14سو سال قبل دین اسلام نے دے دیے تھے۔ مغرب عورتوں کے جن حقوق کی بات کرتا ہے وہ صرف جنسی استحصال ہے ، ورنہ تاریخ گواہ ہے جتنی عزت اسلام نے عورت کو دی مغرب کی عورت اس عزت اور ان حقوق سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جتنی منافقت مغرب کی اقوام میں ہے شاید ہی کہیں اور ہو۔ یہ اوپر سے انسانیت ،انسانی ہمدردی، بنیادی حقوق اور امن کے نعرے لگاتے ہیں جبکہ ان کے لیے سب کچھ صرف پیسہ ہے۔
اپنا سارا پیسہ مسلمانوں پر جنگیں مسلط کرنے میں لگاتے ہیں اگر ان میں اتنی ہمدردی ہوتی تو افریقہ اور صومالیہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی مالی مدد کرتے مگر یہ صرف اپنے اقتدار کی حوس کے لیے مسلمان بچوں پر بمباری کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
مغرب نے موصل، رقاہ، ادلب، افغانستان سمیت کوئی دیگر ممالک کو جمہوریت اور آزادی کے نام پر ملیا میٹ کردیا۔ مگر وہیں اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔ ’’ فرمایا کہ ’’اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو انہیں بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعضوں کو شہید کرے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘، (القرآن)۔ اس دلیل برحق کے اثرات ہمیں نظر آئے۔ کبھی مغرب کو سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کبھی آسمان سے اولے برسا دیے۔ کبھی بے موسمی شدید ترین برف باری کردی، کبھی ان کے اپنے ہی بچوں نے بندوق پکڑ کر چلانا شروع کردیا اور کتنی ہی اموات کرڈالیں۔
یہاں پر بات ہوئی رہی ہے کہ ہم نے مغرب کو اپنا رول ماڈل کیوں کر بنالیا ۔ کبھی سوچیں اس مغرب کے خوبصورت چہرے کے پس پردہ کیا کیا خطرناک عوامل شامل ہیں۔ کبھی سوچیں یہی مغرب ہے کہ جہاں پر سب سے زیادہ عورتوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے۔یہی وہ مغرب کہ جس سے تنگ شہری اب اسلام قبول کررہے ہیں۔ یہ وہ مغرب جس سے ہم بے پردگی سیکھتے ہیں وہاں لڑکیاں پابندی کے باجود پردہ کرتی ہیں اور اس کا جرمانہ ادا کرتی ہیں۔ کبھی کسی مغرب کے پردیسی سے پوچھیں کہ وہاں کی لڑکیاں کیا چاہتی ہیں تو وہ بتائیں گے صرف اور صرف عزت، احترام اور گھر میں سکون چاہیے۔ وہ مشرق کو پسندیدہ سمجھتی ہیں۔
کیا اس کے باوجود مغرب کو رول ماڈل گرداننا اور ان سے مرعوب ہونا چاہیے۔ اے اہل مشرق یہ صرف اور صرف ہماری ذہنی پستی کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے یہاں میں ان الفاظ کا تذکرہ ضرور کروں گی جو تاریخ اسلام کے عظیم سلطان صلیب شکن صلاح الدین ایوبی نے آج سے 839 سال قبل اپنے مشیر سے ادا کیے۔ اللہ نے اس عظیم شخص کی نگاہوں کے سامنے سے حجاب اٹھا دیے کہ اس کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوا اور ہورہا ہے، وہ الفاظ یہ تھے کہ’’اللہ نہ کرے اسلام کا نام جب بھی ڈوبا مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا۔ ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جارہی ہے، یہ رجحان بتا رہا ہے کہ ایک روز مسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے اپنی سرزمین کفار کے حوالے کردیں گے، اگر اسلام کہیں زندہ رہا تو وہاں مسجدیں کم اور قبحہ خانے زیادہ ہوں گے۔ ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بے حیا ہوجائیںگی، کفار انہیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں۔
خدارا میرے مشرقی مسلمانوں اب بھی وقت ہے اپنے اقدار کو سمجھو۔ مت غلاظت کی تمنا کرو۔ وہ مغرب ہے اس کی طرف جانے والا ڈوب جاتا ہے۔ خود کو بچانا ہے تو اپنی تہذیب کی حفاظت کریں اور اسی کو فروغ دیں۔