صوبائی خزانے میں سالانہ 50ارب روپے سے زائد ہیراپھیری کا انکشاف
شیئر کریں
٭بلوچستان کے خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے والے سیکرٹری کی طرح سندھ میں کتنے ہی مشتاق رئیسانی موجود ہیں لیکن نیب حکام تفتیش سے بے پرواہیں،ذرائع کادعویٰ٭سابق صوبائی سیکریٹری لئیق میمن چار ارب روپے ، ثاقب سومرو تقریباًتین ارب روپے، وفاقی بیوروکریٹ فرحان نبی جونیجو بھی چار ارب روپے لے کر اُڑن چھو ہوچکے٭ نیب نے حیدر آباد اور میرپور خاص میں ایک نیٹ ورک پکڑلیالیکن برآمد کردہ املاک و رقوم آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اربوں روپے تو بااثر افراد کی جیبوں میں جاتے تھے
الیاس احمد
نیب نے پچھلے سال کوئٹہ سے گریڈ 20 کے افسر اور صوبائی سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارکر 65 کروڑ روپے نقد اور ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی املاک برآمد کرکے چونکا دیا تھا اور پھر اس کے اثاثوں کی تحقیقات میں کئی ہفتے لگ گئے ۔مجموعی طورپر مشتاق رئیسانی تین چار ارب روپے ظاہر کرچکا تھا۔
باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں بھی تین چار افسران مشتاق رئیسانی سے قبل ہی کروڑوں، اربوں روپے لے کر ملک چھوڑکر چلے گئے لیکن نیب اور حکومت سندھ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک صوبائی سیکریٹری لئیق میمن فشریز لائیو اسٹاک کے تین سے چار ارب روپے لیکر بھاگ چکا ہے۔ پھر سیکریٹری زراعت ثاقب سومرو بھی تقریباًتین ارب روپے لیکر خاموشی سے ملک چھوڑکر بیرون ممالک جابسے‘ پھر سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی حکومت میں گریڈ 18 کے افسر کے طورپر کام کرنے والے فرحان نبی جونیجو بھی چار ارب روپے جتنی مالیت کی رقم لیکر بیرون ممالک سیٹ ہوگئے۔ اور ان کو کچھ بھی نہیں کہا گیا تو دوسرے افسران بھی شیر ہوگئے ۔بلاآخر نیب نے حیدر آباد اور میرپور خاص میں چھاپے مارکر پورا ایک نیٹ ورک پکڑلیا جو مشتاق رئیسانی سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گیا تھا لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ حکومت سندھ نے ان سرکاری ملازمین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا بلکہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی سندھ اسمبلی کے ایوان میں کہہ بیٹھے کہ نیب نے ایک غریب کلرک کو پکڑلیا ہے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ وہ یہ بات اس لئے کہہ رہے تھے کہ حال ہی میں پیر مظہر الحق 14 ہزار غیر قانونی بھرتیوں کے کیس سے کلیئر ہوئے تھے۔ نیب نے سب سے پہلے پولیس میں ملازمت کرنے والے باپ بیٹا یوسف اور عامر کو گرفتار کرکے اربوں روپے کی املاک برآمد کیں پھر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اکاﺅنٹس افسر مشتاق شیخ کو گرفتار کرکے ڈیڑھ دوارب روپے کی املاک ڈھونڈ نکالیں۔ پھر اب میرپور خاص سے ایجوکیشن افسر بچومل کوگرفتار کرکے کروڑوں روپے کی املاک کا پتہ لگالیا۔
”جرا¿ت“ کی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مشتاق شیخ براہ راست حکومتی شخصیات خصوصاً وزیراعلیٰ ہاﺅس کی سرپرستی میں سارا جعلی دھندا کرتے رہے۔ وہ ڈی ڈی او اکاﺅنٹس سے براہ راست پولیس‘ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت میں ادائیگیاں کرتے رہے حالانکہ ڈی ڈی او اکاﺅنٹس سے صرف کسی پیٹرول پمپ کو‘ کسی فرنیچر شاپ یا کسی الیکٹرانک اشیاءوالی شاپ کو ادائیگی کی جاسکتی ہے ،اوروہ دو تین لاکھ روپے کے اندر رقم ہوتی ہے۔ مشتاق شیخ نے ایک گروپ بنا رکھا تھا جس میں شبیر ہالیپوٹو‘ محمد چوہان جامشورو کے خالق راہپوٹو شامل ہیں ۔یہ گروپ پولیس اہلکاروں یوسف اور عامر کے ذریعہ کروڑوں اربوں روپے کی ڈی ڈی او اکاﺅنٹس سے ادائیگیاں کرتے رہے اور جو رقومات اور املاک ان سے برآمد ہوئی ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کیونکہ یہ معمولی حصہ ان کو ملتا تھا ،باقی اربوں روپے تو ان بااثر افراد کی جیبوں میں جاتے تھے جو یا تو کسی اہم طاقتور ہاﺅس یا پھردبئی میں بیٹھے ہیں ،کیا نیب ان بااثر افراد پر ہاتھ ڈالے گی ۔۔یا نہیں؟ اس سوال پرسیاسی و بیوروکریسی کے ہرحلقے میں بحث ہورہی ہے ۔حکومتی شخصیات کے اعتماد سے تو لگتاہے کہ ان ہی افراد کو مقدمات میں پھنسایا جائے گا اور بڑے لوگوں کو بچالیا جائے گا۔
اگر ایمانداری سے تحقیقات کی جائے تو پتہ چلے گا کہ ہر سال صوبائی خزانے سے 40 سے 50 ارب روپے کی ہیرا پھیر ی کی گئی ہے اور یہ رقم بڑے صاحب‘ ایک طاقتور خاتون اور دبئی میں بیٹھے ہوئے بااثر افراد کے جیبوں میں جارہی ہے ،تبھی متعلقہ وزارت کو بھی اطمینان ہے کہ جب نمبر ون‘ نمبر ٹو‘ نمبر تھری پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا تو پھر ان پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 8برسوں سے محکمہ خزانہ کا قلمدان ایک ہی شخص کے پاس ہے ۔ حالیہ دنوں میں نیب نے حیدر آباد اور میرپور خاص میں گرفتاریاں کرکے مشتاق رئیسانی جیسے افسران کو پکڑا ضرور ہے لیکن ان کے سرپرستوں پر ہاتھ نہ ڈال کر انصاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔