ایئر پورٹ فروخت کرنے کا اب ایک اور طرفہ تماشہ
شیئر کریں
یہ حقیقت بھی روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز نا اہل سیاستدانوں اور حکمرانوں کی تجربہ گاہ، لوٹ کھسوٹ کا بازار اور تعمیر و ترقی کا فقط خواب بن چکا ہے، مجھے آج کسی درد مند شاعر کا کہا ہوایہ شعر یاد آرہا ہے کہ…. اک ہنگامہ ¿ محشر ہو تو اُس کو بھولوں، رہ رہ کے سو باتوں کا خیال آتا ہے، اس کا ذکر تو ہمارے دانشور وقتاََ فوقتاََ کرتے آرہے ہیں لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ کوئی بھی وقت کا ذمہ دار ہماری بات سننے اور سمجھنے کیلیے تیار نہیں، مگر اس تمام کے باوجود ہمیں تو ہے حکم اذاں کے مترادف ہم اپنا رونا روتے رہیں گے اور اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ جب بھی سول حکومتیں ایوان میں جلوہ گر ہوتی ہیں تو وہ ایسے کارنامے سر انجام دینا شروع ہوجاتی ہیں کہ عوام پریشان ہوکر رہ جاتی ہے اور ان کے دامن میں کف ِافسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا اور بعض اوقات تو یہ شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کو کوئی ادراک نہیں ہے اور نہ ہی اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو بادشاہ سلامت سمجھ بیٹھتے ہیں اور وہ نہ کسی کے جواب دہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ وہ قوم کو اپنے سامنے جواب دہ ہونے کا پیغام اور درس دیتے ہیں۔
کتنی افسوسناک اور حیرت انگیز خبر ہے کہ ہم پاک سرزمین کی تمام تر آمد و رفت گروی رکھ رہے ہیں اور اس کی نسبت قرضے وصول کرنے کے ذرائع پیدا کررہے ہیں جبکہ یہ قرضہ جات بھی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے علاوہ ہیں اور اب تو سی پیک کو بھی ایک پائیدار ذریعہ بنادیا ہے اور اربوں روپے وصول کئے جارہے ہیں اور ہم یہ خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کارستانیاں ناعاقبت اندیش، نا اہل اور مفاد پرست مشیروں کی ہیں جو حکومت کو ایسی مشاورت دیتے ہیں جس سے قومی استحکام اور ملی سلامتی مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔
اب حکومت دیگر قومی اداروں کی طرح ایئر پورٹ کو بھی کمزور کرکے انہیں خطرات کی زنجیروں میں جکڑرہی ہے، یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایئر پورٹ وہ قومی اثاثے ہیں جن سے ملکی دفاع اور معاشی ترقی وابستہ ہے، جن کو فروخت کرنا اور غیر ملکی کمپنیوں کے سپرد کرنا انتہائی سنگین غلطی ہوگی، ہم ایئر پورٹ کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں اور ان اداروں کو حساس جانتے ہیں اس لیے ان کیلیے اس فیصلے کے خلاف ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں، اس وقت حکومت وقت کو ہمارا صائب مشورہ ہے کہ وہ ایسے بے مقصد اور غیر مناسب فیصلوں سے باز رہے اور ایسے ناعاقبت اندیش وزیروں اور مشیروں کی تجاویز خاطر میں لانے سے سنگین غلطی کا ارتکاب نہ کرے، دنیا کے بے شمار ممالک ہیں جو اپنے ایئر پورٹس کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرتے ہیں جب کہ پاکستان دنیا کا اہم ترین ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے، اس لیے ہم کسی بھی حوالے سے اس ملک کے ان حساس اور دفاعی اداروں کو فروخت نہیں کرسکتے، ہم یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان اور اسرائیل اپنی گہری سازش سے ہماری دفاعی پوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش میں مصروف ہیں اور اگر ہم نے دفاعی حالات کے تقاضوں پر دور اندیشی سے کام نہ لیا تو پھر ہمیں لامتناہی نقصان سے کوئی بچا نہیں سکتا، یہ خدا وند عظیم کا عظیم احسان ہمیں ملا ہے کہ مسلح افواج جن کے تذکرے دنیا بھر کے مبلغوں اور قوموں میں موجود ہیں اور ہماری مسلح افواج اور ASF کی حسن کارکردگی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ اس کا مقابلہ دنیا میں نہیں کیا جاسکتا اور اس صداقت سے انکار کی کون جرا¿ت کرسکتا ہے کہ ہماری فوج اور ایئر پورٹ کی سیکورٹی اے ایس ایف کے کارنامے نہ ہوتے تو پھر ہمارے یہ حساس اور دفاعی ادارے نقطہ¿ صفر سے نیچے گر کر قصہ¿ پارینہ بن چکے ہوتے، یہ ماضی قریب کا المناک سانحہ تھا کہ ایئر پورٹ پر حملہ ہوا اور یہ بھی ہماری آرمی کا حسن کمال تھا کہ حملہ ناکام ہوا تھا ورنہ ایئر پورٹ، ہمارے دفاع اور معاشی ترقی کی شہ رگ کٹ جاتی اور ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہوتا، ہم اس ادارے کو کسی دوسرے کے سپرد اس لیے کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ بیرون ملک کی کمپنیاں اپنا ہی اسٹاف لائیں گی جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس کے ذریعہ کوئی بھی سازش کارگر ہوسکتی ہے اور پھر ان حالات میں ہماری پائیدار اور جہاندیدہ ایجنسیاں مفلوج اور کمزور ہوکر رہ جائیں گی چونکہ بیرون ملک کا اسٹاف ہمیشہ اپنے ملک کے وفادار ثابت ہوگا اور ان کی کارکردگی صرف پیسہ اور پیسہ کمانے پر صرف ہوگی ہم ان کے سر پر لاکھ سیکورٹی بھی بٹھادیں تو وہ اپنے مقاصد اور وفادارہونے کا ہی مظاہرہ کریں گے، ہمیں یہ محسوس کرنا ہوگا کہ اپنے حساس اور دفاعی مقامات کے کنٹرول میں اپنی ایجنسیوں کو برقرار اور قائم کرنا ہے، حکومت اس ضرورت کو ناگزیر سمجھے کہ ہم نے ایئر پورٹ جیسے ادارے کی شہ رگ کسی غیر ملکی طاقت کے سپرد نہیں کرنی، اگر حکومت ایسی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے تو پھر ڈان لیکس اور پاناما لیکس کی طرح یہ بھی حکومت کیلیے دردِ سر بن جائے گا اور حکومت کے خلاف چارج شیٹ ایسی ہوجائے گی جس کا تدارک حکومت کیلیے بھی مشکل ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ہوش کے ناخن اُس وقت لے جب چڑیاں کھیت چگ کے اُڑ جائیں، اسی لیے کہ وقت کی نماز وہ ہوتی ہے جو وقت پر ہو اور جو نمازیں و قت پر ادا نہیں ہوتیں وہ بے وقت کی ٹکریں کہلاتی ہیں، اس سے پہلے کہ اگر ہمارے ناعاقبت اندیش فیصلے گردش میں آگئے تو پھر قوم کے نقصان کا ازالہ ناممکن ہوگا اور ہم کبھی کسی حکومت کو پائیدار اور دائمی نہیں سمجھتے یہ کسی وقت بھی سیاسی مسافر بن سکتی ہے اورجبکہ قوم اور قوم کے ادارے ہمیشہ دائمی اور مضبوط ہوتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ تا ابد یہ قائم و دائم رہیں۔
٭٭